Tag Archives: Zia Shahid

بیت المقدس کو اسرائیلی صدر مقام تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے پر دنیا بھر میں احتجاج:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ طاہر القادری نے ملاقات کے دوران مجھے کہا تھا کہ ہم اب قانونی جنگ لیں گے سڑکوں پر نہیں آئے گے۔ لیکن پریس کانفرنس میں انہوں نے شک کا اظہار کیا ہے کہ رپورٹ میں سے کچھ حصوں کو نکال دیا گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بیورو کریسی کی طرف سے ملنے والی یہ کاپی مکمل نہیں ہے۔ جب انہیں عدالت سے کاپی ملے گی تو شاید وہ مطمئن ہوں گے۔ اس لئے وہ اپنا پریشر بڑھا رہے ہیں۔ اخبارات کی لیڈ سٹوری کے مطابق پنجاب حکومت اتنی بھی معصوم نہیں۔ وکلاءکی آرا کے مطابق پی اے ٹی کی کوشش ہو گی کہ وہ پنجاب حکومت کے کردار کو لے کر ضرور عدالت میں سوال اٹھائے۔ رانا ثناءاللہ کا کہنا بھی درست ہے کہ رپورٹ میں کسی جگہ پر شہباز شریف کا رول متعین نہیں کیا گیا، نہ ہی ان کے بارے شکایت کی گئی ہے۔ میڈیا نمائندگان، سفیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ بھی چاہیں گے کہ مصدقہ نقول انہیں مل جائیں اور دیکھیں کہ پنجاب حکومت کا نام کیوں استعمال کیا جا رہا ہے ایک بات تو ثابت ہے کہ رکاوٹیں ہٹانے کا حکم رانا ثناءاللہ کی جانب سے آیا تھا۔ اس کے بعد گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا۔ اس پر ساری بحث کا دارومدار ہے۔ پولیس افسران موجودہ حکومت کے خلاف بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے جب تک کہ وہ ریٹائر نہ ہو جائیں یا انہیں عدالت بلا کر نہ پوچھے۔ رانا ثناءاللہ قبول کرتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے سیکرٹریٹ میں ہونے والی میٹنگ کے دوران انہوں نے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا۔ دوسری جانب شہباز شریف کہتے ہیں کہ آپریشن ہوتا رہا اور مجھے علم ہی نہیں ہوا۔ ماہر قانون دان خالد رانجھا سے پوچھتے ہیں کہ کیا توقیر شاہ جو کہ دوسرے ملک میں سفیر مقرر ہیں ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا واقعی انہیں وزیراعلیٰ نے حکم دیا تھا کہ ایکشن کیا جائے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ معاملات نچلی عدالتوں سے شروع ہوں گے یا ہائیکورٹ سے اسے شروع کیا جائے گا۔ اگر کسی کو تسلی نہ ہو تو براہ راست سپریم کورٹ اس معاملے کو اپنے ذمہ لے لے۔ قانون کے مطابق ایک ایس ایچ او بھی وزیراعلیٰ سے تفتیش کر سکتا ہے۔ جے آئی ٹی کی اصطلاح اس طرح سے متعارف ہوئی کہ پولیس کے دو بندے اور دوسری ایجنسیوں کے دو بندے۔ سمجھا جاتا ہے کہ جے آئی ٹی اچھا پرفارم کر سکتی ہے۔ لیکن نوازشریف صاحب کے کیس میں جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروائی تھی کہ اتنے بڑے کیس میں ہمیں آزادی سے کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔ نامعلوم طاہر القادری اب کیا ڈیمانڈ کریں گے۔ لیکن اس بات میں جان ہے کہ سپریم کورٹ سو موٹو ایکشن لے لے۔ بڑا مشکل لگتا ہے کہ صوبے کا وزیر قانون تو کم از کم اس معاملے میں ملوث دکھائی دیتا ہے ایسی صورت میں جے آئی ٹی کی تشکیل آسان کام نہیں ہو گا۔ جسٹس خلیل الرحمن کی ایک اور رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نجفی رپورٹ بالکل ناقص ہے اس میں غلطیاں ہی غلطیاں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ خلیل الرحمن کو پنجاب حکومت نے ہی کہا تھا۔ ان کے صاحبزادے پنجاب حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل ہیں۔ دوسری رپورٹ ساتھ ہی جاری کرنے کا کیا مقصد تھا؟ جو پچھلی کی نفی کرتی ہو؟ جسٹس (ر) خلیل الرحمن تو کافی عرصہ سے ریٹائر ہو چکے ہیں؟ کیا ان سے پہلے کہا گیا تھا کہ رپورٹ کے بارے دوسری رپورٹ تیار کریں۔ اسرائیل کا مقصد تل ابیب سے اپنے دارالحکومت کو بیت المقدس شفٹ کرنے کا یہ ہے کہ وہ کافی فاصلے پر تھا وہ اپنا کنٹرول موثر بنانے کے لئے ایسا کرنا چاہتے ہیں دوسرے نمبر پر یہ کہ مسلمان اپنے قبلہ اول پر حملہ کرنے سے پہلے بہت سوچیں گے۔ سارے مسلمان ممالک بھی اس لئے اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ امید یہ تھی کہ امریکہ بھی اس کی مخالفت کرے گا۔ مگر اس نے اس کو تسلیم کر لیا ہے جس پر دنیا بھر میں شدید احتجاج ہو گا۔ رانا ثناءایک بہادر راجپوت ”رانا“ ہیں۔ ان کی مونچھوں کا اسٹائل بتاتا ہے کہ وہ کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں۔ شاید وہ یہ سلسلہ اسی طرح چلاتے رہیں۔انہیں سکون نصیب نہیں میں نے حافظ سعید سے ملاقات کے دوران انہیں اپنی تینوں کتابیں پیش کی ہیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ نظر بندی کے دور میں مجھے ایک کتاب ملی ہے۔ ”امی جان“ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے شروع سے آخر تک کتاب ایک ہی سیٹنگ میں ختم کی۔ انہوں نے مجھ سے پانی کے مسئلے کے بارے پوچھا۔ میں نے انہیں سندھ طاس معاہدے کے بارے وضاحت کی جو 1960ءمیں ہوا۔ اس کی رو سے بھارت نے جن دریاﺅں کا پانی مکمل طور پر روک رکھا ہے۔ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ اس پر حافظ صاحب نے کہا کہ میں اور میرے ساتھ آپ کی بات کو ”انڈوز“ کرتے ہیں۔ یہ معاملہ بہت اہم ہے۔ ماہر قانون دان، خالد رانجھا نے کہا ہے کہ پی اے ٹی اگر چاہتے تو آسانی سے مصدقہ کاپی حاصل کر سکتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ شائع شدہ رپورٹ میں سے کوئی چیز نکالی گئی ہو گی۔ رپورٹ سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ پنجاب حکومت نے طاہر القادری کے بندوں کو ”پھینٹی“ لگانے کا حکم دیا۔ ہو سکتا ہے پولیس نے تجاوز کیا ہو لیکن اسے پنجاب حکومت کی جانب سے حکم دیا گیا۔ گواہیاں اگر جھوٹی ہوں تو ملزم کے گلے پڑ جاتی ہیں۔ اس بات کے شواہد رپورٹ میں کہیں نہیں مل رہے کہ وزیراعلیٰ نے انہیں روکنے کا حکم دیا ہو۔ اس بات کے شواہد بھی موجود نہیں کہ چیف منسٹر کے سیکرٹری نے پولیس کو روکنے کا حکم دیا ہو۔ شرم کی بات ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد کمیشن کی رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ اس معاملے کا حل یہ ہے کہ سپریم کورٹ ماڈل ٹاﺅن پر جے آئی ٹی بنا دے اور اس کی تفتیش ان کے سپرد کر دے اور وہ وقت کے ساتھ تعین کرے کہ کون کون اس سانحہ میں ملزم ہے۔ معاملے کا سادہ حل یہی ہے کہ سپریم کورٹ ایک ایسی جے آئی ٹی بنائے جس پر فریقین کو اعتماد ہو۔ ماہر قانون دان جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ نجفی رپورٹ کے جج صاحب ابھی حیات ہیں۔ اگر رپورٹ میں سے کچھ اجزاءنکالے گئے ہیں تو ان سے پوچھا جا سکتا ہے۔ عدالت سے جانا ایک آسان بات ہے کہ جناب یہ وہ رپورٹ نہیں ہے جو جج صاحب نے لکھی تھی۔ اس میں سے کچھ اجزاءخارج کئے گئے ہیں۔ جج صاحب سے مصدقہ نقل حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ رپورٹ فیصلہ تو نہیں ہے لیکن ایک ہائی لیول کے جج نے وقوع کو ”ایگزامن“ کیا۔ جس میں شہباز شریف صاحب نے حلف نامہ کی جمع کروایا۔ جس وقت یہ معاملات عدالت میں کھلیں گے۔ تو دونوں جانب کو سمن کیا جا سکے گا۔ فیصلہ تو نہیں ہے لیکن ایک اہم رپورٹ ہے۔ ماہرقانون دان اکرم شیخ نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر 2014ءمیں دو ایف آئی آر درج ہوئیں۔ تفتیش کے دوران جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی مقرر کر دی گئی اس کے بعد حکومت پنجاب نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ جوڈیشل ٹربیونل بنا دیا جائے تا کہ واقعات دوبارہ نہ ہو سکیں۔ بھٹو دور میں شکیل الرحمن صاحب کا ایک کمیشن بنا تھا۔ وہ کمیشن بھی سیکشن (3) کے تحت بنایا گیا تھا۔ اس میں احمد رضا قصوری صاحب مدعی تھے۔ ان پر جرح کی اجازت طلب کی گئی۔ کورٹ نے قبول کیا کہ اس قسم کی رپورٹوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ نہ یہ تنازع طے کرتی ہیں نہ ان کی جوڈیشل پروسیڈنگ کی حیثیت ہوتی ہے اس لئے باقر نجفی صاحب کی رپورٹ ایک رپورٹ ہی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اس طرح جسٹس (ر) خلیل الرحمن صاحب نے جو رپورٹ دی ہے۔ وہ ان کی اپنی رائے ہے ان کی رائے بھی قابل احترام ہے۔ باقر نجفی کی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے اگر یہ رپورٹ کہہ بھی دیتی کہ فریقین یوں کریں! یوں کریں! تب بھی فریقین اس کے پابند نہیں تھے۔ اسے ”نان بائنڈنگ رپورٹ“ کہہ سکتے ہیں۔ خلیل الرحمن کی رپورٹ میں ایک منتق ہے۔ ایک سوچ ہے اور ملکی قانون کی تاریخ کے عین مطابق ہے۔ نجفی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے اس نے کسی کو مجرم یا ملزم ثابت نہیں کیا۔ یہ واقعات بیان کرتی ہے اور پنجاب تک پہنچ جاتی ہے۔ میرا نوازشریف صاحب سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص فیس دینے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو میں اس سے فیس کی ڈیمانڈ نہیں کرتا۔

سانحہ ماڈل ٹاﺅن شہباز شریف نہ سہی سیکرٹری توقیر شاہ کا کیا رول تھا :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ماڈل ٹاﺅن سانحہ کی رپورٹ سامنے آ گئی ہے۔ یہ حکومت کی جانب سے اچھا اقدام ہے گزشتہ رات میری ملاقات طاہر القادری سے ہوئی تھی ان کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب حکومت نے رپورٹ شائع نہ کی تو ہم اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیں گے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو کال بھی دے دی تھی۔ اچھا ہے معاملات عدالتوں میں اور مذاکرات میں حل ہونے چاہئیں۔ سڑکوں پر جنگ لڑنا درست نہیں ہے۔ رانا ثناءاللہ نے رپورٹ پر پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ اس پر شہباز شریف صاحب کا نام موجود نہیںہے۔ یہ بات درست ہے کہ میاں شہباز شریف کا نام اس میں موجود نہیں ہے۔ ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ رانا ثناءاللہ کو حکم ملا تھا۔ جو توقیر شاہ کی طرف سے آیا تھا۔ جو سی، ایم کے پرسانل سیکرٹری تھے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سیکرٹری نے سی ایم کی اجازت سے یہ حکم دیا ہو گا۔ اب بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں کیا سیکرٹری تو سی ایم، اتنے نازک معاملے پر وزیر قانون کو ہدایات جاری کر سکتا ہے۔ اگر شہباز شریف صاحب کا موقف درست سمجھا جائے تو کیا سیکرٹری اتنے ”ہتھ چھٹ“ تھے کہ انہوں نے سی ایم سے پوچھے بغیر ہی احکامات جاری کر دیئے۔ رانا ثنا نے چیف سیکرٹری کے کمرے میں صلاح مشورے میں حصہ لیا تھا۔ انہیں محسوس ہوا تھا کہ سکیورٹی مسائل کی وجوہات کی بنا پر طاہر القادری کے گھر کے اردگرد موجود رکاوٹیں مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ رانا ثناءنے یہ بات قبول کی ہے کہ انہوں نے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ توقیر شاہ صاحب بیرون ملک ہیں اور انہیں سفیر مقرر کیا جا چکا ہے اگر انہیں عدالت نے بلایا تو وہ ضرور آئیں گے۔ طاہر القادری 40 سال سے میرے پڑوسی ہیں۔ اب بھی ان کے گھر کے باہر پہرہ دار موجود ہیں جو چیک کر کے کسی کو اندر جانے دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ طاہر القادری کے کارکنوں نے ہمارے دفتر کا گھیراﺅ کیا تھا۔ انسان کا کسی سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ طاہر القادری نے مجھے بتایا کہ اب وہ قانونی جنگ لڑیں گے۔ طاہر القادری کا کہنا ہے کہ رانا ثنا اس کے اہل نہیں ہیں کہ جس پر چاہیں چڑھائی کر دیں۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں 100 لوگوں کو گولیاں لگیں اور 14 افراد جاں بحق ہوئے۔ قادری صاحب کے اس موقف میں وزن تو لگتا ہے کیونکہ وزیراعلیٰ کی مرضی کے بغیر اتنا بڑا اور اہم فیصلہ ہو نہیں سکتا۔ پولیس نے طاہر القادری کے گھر کا گھیراﺅ 9 بجے یا اس سے کچھ پہلے کیا۔ شہباز شریف کا گھر زیادہ فاصلے پر نہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ دس، گیارہ بجے تک پتا چل جانا چاہئے تھا۔ شہباز شریف کا قول ہے کہ انہیں ٹی وی کے ذریعے معاملے کا لیٹ پتا چلا۔ لاہور کے واقعہ کا کوئی تعلق میاں محمد نوازشریف سے نہیں بنتا۔ بعض ٹی وی چینل کا کہنا یہ ہے کہ رپورٹ میں سے کافی مفاد نکال دیا گیا ہے اگر طاہر القادری اور ان کے ساتھی بھی یہی شکایت کرتے ہیں۔ قانونی طور پر ان کی تسلی کس طرح ممکن ہے اس کا مشورہ ماہر قانون ایس ایم ظفر ہی ہمیں دے سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے کارکن پارٹی قیادت سے ناراض بھی ہیں اور مایوس بھی۔ پارٹی حکمت عملی اب ایسی لگتی ہے کہ وہ باقاعدہ طور پر بلاول بھٹو کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ پارٹی کی جانب سے اب تسلسل کے ساتھ رابطہ مہم شروع کر دی گئی ہے۔ اسلام آباد میں میں نے ان کی تیاریاں دیکھیں، حاجی نواز کھوکھر صاحب میرے ہوٹل میں آئے۔ دو ڈھائی گھنٹے ہم نے بات چیت کی، ان کے بھائی تاجی کھوکھر کا ڈیرہ بہت بڑا ہے۔ انہوں نے جیل میں مجھ سے کہا کہ جب تک چودھری نثار موجود ہیں میری ضمانت نہیں ہو گی ایسا ہی ہوا چودھری نثار فارغ ہوئے ویسے ہی ان کی ضمانت ہو گئی۔ وہ جانوروں کے شوقین ہیں۔ انہوں نے اپنے بڑے گھر میں ایک چڑیا گھر بنا رکھا ہے جہاں شہر ریچھ اور سانپ وغیرہ موجود ہیں۔ پی پی پی بلاول کی لاﺅنچنگ کر رہی ہے۔ آصف زرداری بلاول کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں بلاول میں میچور نہیں آ گئی ہے۔ تقریر بھی اچھی کرنے لگے ہیں۔ آصف زرداری ایک ذہین انسان ہیں۔ امید ہے وہ بلاول کی سیاسی قربانی نہیں دیں گے اور نوازشریف سے مفاہمت نہیںکریں گے۔ اور بلاول کو آزادانہ کھیلنے دیں گے۔ سنیٹر حمد اللہ نے چیئرمین سینٹ کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ اگر سینٹ میں ختم نبوت کے حوالے سے کوئی ترمیم آئی تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ اس پر ہر گز ہرگز نظرثانی کی گنجائش نہیںہے۔ اس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کو خوش کرنے کے لئے کیا مذہبی معاملات کو چھیڑا جا رہا ہے؟ ترامیم کی کوشش ابھی بھی جاری ہیں؟ ماہر قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ ماڈل ٹاﺅن کی رپورٹ منظر عام پر آنا بہت اچھا ہے۔ اب شفافیت کا دور شروع ہو گا۔ اور عوام میں موجود ابہام اب ختم ہو جائے گا۔ یہ ملک اور جمہوریت دونوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ رپورٹ میں بڑے لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں۔ الزام ایک دوسرے کو بچانے کے لئے پولیس پر لگائے گئے ہیں، سوال یہ بنتا ہے کہ اگر اس رپورٹ میں ایسا کچھ نہیں تھا تو حکومت نے اسے چھپانے کی کوشش کیوں کی۔ اسے تو اگلے دن ہی شائع ہو جانا چاہئے تھا۔ اگرچہ اس رپورٹ میں بڑے بڑے لوگوں کے نام نہیں ہیں پھر بھی رپورٹ میں کسی جانب کو اشارہ کیا گیا ہو گا کہ کوتاہی کس جانب سے ہوئی رپورٹ میں جج صاحبان کے دستخط موجود ہوں گے۔ اگر کسی کا بیان اس رپورٹ کے خلاف آتا ہےتو ججز صاحبان ضرور اس کی تردید کریں گے۔ میںنے تمام حقائق دیکھ کر ہی اس کا نتیجہ اخذ کرتا ہوں۔ جے یو آئی (ف) کے سنیٹر حمد اللہ نے کہا ہے کہ سینٹ کی ہیومن کمیٹی میں یہ مباحثہ جاری تھا۔ میں سمجھا کہ یہ پچھلے معاملے کو اس کی اہمیت کی بنیاد پر زیربحث لائے ہیں۔ توہین رسالت میں ترمیم کس کی چاہت ہے؟ حلف نامے کی تبدیلی پر ملک میں کس قدر انتشار برپاہوا۔ پورا ملک حکومت کے خلاف امڈ آیا۔ اس کے باوجود ہیومن کمیٹی میں یہ ترمیم زیر بحث ہے۔ بحیثیت ایک سنیٹر، سیاستدان اور مسلمان کے میری ذمہ داری بنتی ہے کہ چیئرمین سینٹ کو آگاہ کروں کہ یہ ابھی تک زیر بحث کیوں ہے۔ توہین رسالت کیکوئیبھیتبدیلی یا ترمیم قابل قبول نہیں ہے کیا یہ سزائے موت کو عمر قید بنانا چاہتے ہیں، ملکی اساس، قانونی تقاضے اور اپنے فرائض سمجھتے ہوئے میں نے ایک خط چیئرمین کو بھجوایا ہے کہ آپ اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے اسے روکیں۔ 13،14 نومبر کے اخبارات میں ایک بہت بڑی خبر فرنٹ پر چھپی ہے کہ جنیوا میں ایک کنونشن ہو رہا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ پاکستان توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرے۔ کیونکہ یہ انسانی حقوق کی پامالی میں آتا ہے۔

”پشاور “دہشتگردی میں فوج سے بھی پہلے پولیس فورس کی دلیرانہ کاروائی قابل تحسین :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف بادشاہ ہیں وہ جو چاہیں عدالتوں کے بارے کہہ سکتے ہیں کسی اور کی کیا مجال کہ اس انداز میں عدالت کے بارے بیان دے سکے۔ اگر یہی معاملہ چلتا رہا تو بڑھتے بڑھتے چھوٹی عدالتوں تک چلا جائے گا۔ لوڈشیڈنگ ختم ہونے کے بارے میں تمام علاقوں سے رپورٹ طلب کی ہے کل ضرور حقائق سامنے لائیں گے۔اویس لغاری صاحب نے اپنے والد کے نظریات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ن لیگ میں شامل ہو گئے۔اویس لغاری بھی اس وقت عاقل بالغ تھے جب ان کے والد نے میاں نواز شریف کی حکومت پر کرپشن کا الزام لگا کر فارغ کیا۔ یہ پرویز مشرف دور میں بھی وزیر رہے۔ یہی پرویز مشرف کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے۔ اب ان کو ساری خوبیاں مسلم لیگ ن میں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست نرالی ہے، شاعر مشرق نے جو خواب دیکھا اس کو قائداعظم نے عملی صورت میں پیش کیا۔ علامہ اقبال نے جرمنی میں جا کر فلاسفی میں پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے اپنے کلام میں کہاجمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میںبندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے یہ جمہوریت ”فیوڈل کلڈ“ کی جمہوریت ہے سندھ میں تمام وڈیرے حکومت میں ہیں۔ پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو نے لوئر مڈل کلاس کے حنیف رامے اور ممتاز کاہلوں وغیرہ کو ٹکٹ دیے تھے۔ جبکہ سندھ میں تمام وڈیروں کو ٹکٹ دیے۔ کے پی کے میں پولیس کو سارے ملک میں ناموری ملی ہے۔ جنہوں نے فوج کے ساتھ مل کر اور فوج سے پہلے ہی بڑی ہمت اور جرا¿ت کا مظاہرہ کیا اور پشاور میں دہشتگردوں کے حملے پر قابو پایا۔ پرویز خٹک اور عمران خان کا مو¿قف ہے کہ کے پی کے میں پولیس کو غیرسیاسی کر دیا گیا ہے اور وہ اب کام کرتی ہے۔ دہشتگردوں کو قابو کرنے پر ہم کے پی کے کی پولیس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ افغان مہاجرین کے آنے اور جانے کی وجہ سے پولیس کو کے پی کے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ افغان مہاجرین کے اکثر رشتہ دار اس جانب رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ پرویز خٹک صاحب آپ فرمائیے کہ جس سارے دہشتگرد افغانستان سے آتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ پاک فوج نے بھی کوشش کی آپ کے علم میں ہے کہ کچھ پابندیاں لگائی جانی چاہئیں۔ اسفند یار ولی سے اچکزئی تک سب نے یہ کہا کہ کے پی کے پٹھانوں کا ملک ہے اور افغانستان سے آنے والے مہاجر نہیں ہیں۔ یہ ان کا وطن ہے۔ انہیں مہاجر نہ کہیں۔ سیاست میں خاموشی کا مطلب ہوتا ہے کہ ہمارے پاس جواب نہیں ہے۔ تحریک انصاف پر عائشہ گلا لئی ایک ایم پی اے صاحب اور خود جاوید ہاشمی نے بہت الزام لگائے۔پرویز خٹک صاحب کو صوبے کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے ضرور جواب دینا چاہیے تھا۔ خاموشی کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ الزام لگانے والوں سے 50 فیصد متفق ہیں۔ سیاستدانوں کے ٹاپ آرڈر میں کوئی بھی ایک دوسرے کا مخالف نہیں ہوتا۔ سب ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ نواز شریف شہباز شریف کے قریبی چہیتے پرویز ملک کے بھائی جاوید اکرم ان کی بیگم معروف صنعتکار ہیں۔ اشرف مارتھ کے داماد ہمارے دوست محسن نقوی صاحب ہیں ”سٹی 42“ والے۔ وہ ساری عمر ایوان صدر میں بیٹھے رہے۔ آصف علی زرداری کے ساتھ، انہیں یہ طور طریقے آتے ہیں۔ وہ ا یک ذہین آدمی ہیں۔ لاہور میں ہونے والی شادی کے فنگشن میں ن لیگ کی ساری لیڈرشپ موجود تھی۔ اس لئے میں تو اپنے ہم وطنوں کو یہی کہوں گا کہ آپس میں نہ لڑا کرو یہ سب ایک ہیں۔ یہ پیسے والے، اقتدار والے سب ایک ہی طبقہ ہے۔ تمام سیاستدان شادی بیاہ کے فنگشن پر ایک ہوتے ہیں لہٰذا ان لیڈروں کے بیانات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ سب اندر سے ایک ہیں۔ میں اور امتنان اسلام آباد گئے تھے وہاں بہت سے اہم اشخاص سے ملاقات رہی میںنے آئی ایس آئی کے جنرل غفور سے کہا جناب اتنی جلدی کیا تھی دھرنے کے لوگوں کو چھڑانے کی۔ اس لئے کہ (3) بندوں کے گھروں پر توحملے ہوگئے تھے۔ 21 استعفے ہو گئے تھے۔ جن میں 16 استعفے تو سیالوی صاحب کے پاس تھے۔ چھ دن انتظار کر لیتے تو مسلم لیگ ن تو آدھی فارغ ہو گئی تھی۔ مریم اورنگزیب سے چائے پی ا ور ان سے گپ شپ لگائی۔ وہ بہت پریشان تھیں، ہماری مذہبی قیادت میں اس قسم کی گالم گلوچ پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھی۔ جو اس دھرنے کے قائدین نے ماں بہن کی گالیوں کو جس طرح ”معرب“ کیا یعنی عربی کے طرز پر گالی دینا۔ جس طرح انہوں نے کرکٹ کو حرام قرار دیا۔ایک نیا مذہب سامنے آیا ہے جس میں نماز پڑھنا اتنا ضروری نہیں ہے جتنا حرمت رسول پر ڈنڈے لیکر سڑکوں پر نکلنا ضروری ہے۔ آج طاہرالقادری سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ میرا کام یہی رہا ہے کہ سینئرز سے ملاقاتیں کروں اور سونگھنے کی کوشش کروں۔
یہ نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
پچاس سالوں میں میںنے جتنا جھوٹ جتنی منافقت، جتنی چال بازی جتنی مکاری ہماری سیاست میں دیکھی، اتنی کہیں اورنہیں۔ بدقسمتی سے ہم جھوٹ بولتے ہیں، کھاتے ہیں پیتے ہیں، پہنتے ہیںاوڑھتے ہیں۔ صبح سے شام تک جھوٹ ہی جھوٹ کا سہارا لتے ہیں۔ ہم لوگوں کی باتوں پر کس طرح درست مشاہدہ نکال سکتے ہیں۔ عموماً 50 فیصد سے زیادہ تو ان کی باتوں میںجھوٹ ہوتا ہے۔ عدلیہ کو قدرت نے کمال صبر بخشا ہے۔ اسے صبر ایوب کہا جاتا ہے انہیں کچھ کہہ لیں وہ کچھ نہیں کہتے۔ ججوں میں برداشت کی انتہا ہو چکی ہے۔ ججوں کے صبر و تحمل کا مظاہرہ شروع کر رکھا ہے اچھی بات ہے۔ لیکن ڈریں اس وقت سے کہ اگر درجہ سوئم کے مجسٹریٹ تک یہ صبر آ گیا تو کیا بنے گا۔ لوگ کرسیاں اٹھا کر نچلے درجے کے مجسٹریٹ کے سر میں مارا کریں گے۔ جاوید ہاشمی نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بھی کہہ چکے کہ نوازشریف میرا لیڈر ہے۔ وہ کہتے ہیں اتنا کچھ ہو جانے کے بعد میں نوازشریف میری بات نہیں سنتے۔ وہ مجھے وقت نہیں دیتے۔ لیکن اب وہ نواز شریف سے مل چکے۔ جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق کے بارے کہانی چھپی تھی کہ دونوں تحریک انصاف میں جا رہے ہیں سعد رفیق نے انہیں تو دھکا دے دیا لیکن خود وہیں رہے۔ جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف میں بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کا ایک ہی حلقہ انتخاب تھا۔ میں نے شاہ محمود قریشی کو کہا کہ جاوید ہاشمی زیادہ دیر تحریک انصاف کے ساتھ نہیں چل پائیں گے۔ یہ پی ٹی آئی میں اندر سے جاسوسی کیلئے وہاں گئے تھے۔ جاوید ہاشمی نے عمران خان کی کمر میں اس وقت خنجر گھونپا جب انہوں نے نعرہ لگایا کہ میں ”مارشل لا“ کے خلاف اور عمران خان آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر مارشل لا لگوانا چاہتا ہے۔ جاوید ہاشمی کو جنرل ضیاءالحق نے وہاں سے اٹھایا جو اس وقت ایم پی اے بھی نہیں تھے اور فیڈرل حکومت میں وزیر بنا دیا جہاں یہ کافی عرصہ رہے۔ یہ ضیاءالحق کے انتہائی حد تک خوشامدی تھے۔ اچانک انہیں لگا کہ مارشل لا بُری چیز ہے۔ انہوں نے علم جمہوریت اٹھا لیا۔ مجھے تو ان میں ”باغی“ کا کوئی خاصہ دکھائی نہیں دیا۔ حالانکہ ان کی کتاب بار بار پڑھی۔ یہ صحت کے وزیر تھے اور تمام وزیروں کو ”ویاگرا“ تقسیم کیا کرتے تھے اس لئے سب ان سے بہت خوش تھے۔ ملتان کے بڑے ہوٹل میں اس وقت دو دو فلور فارما سوٹیکل کے نمائندوں سے بک ہوا کرتے تھے۔ اور لوگوں کو جگہ نہیں ملتی تھی۔ کیونکہ صحت کا وزیر ادویات کا قیمتیں بڑھایا کرتا تھا۔ چنانچہ موصوف نے وہاں یہ کام احسن طریقہ سے کیا۔ ان کی کینٹ میں گھر ہے جس کی ڈیمانڈ 98 کروڑ کر رہے ہیں۔ ایک صحافی کے سوال پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ میرا گھر لیز پر ہے۔ یونس حبیب کا اعترافی بیان موجود ہے کہ اس نے جاوید ہاشمی کو 4 کروڑ روپے دیئے اس دور میں اچانک انتخابات کا اعلان ہو گیا۔ تحریک انصاف کے لیڈروں کی پریس کانفرنس کی ریکارڈنگ موجود ہے جس میں انہوں نے جاوید ہاشمی پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے پیسے لے کر وہاں ٹکٹیں بانٹی ہیں۔ وزیراعلیٰ کے پی کے، پرویز خٹک نے کہا ہے کہ پشاور میں دہشتگردوں کا حملہ ہوا ہے جس میں پولیس نے بڑی دلیری اور بہادری دکھائی جس نے آرمڈ فورسز کے آنے سے پہلے ہی ان پر قابو پا لیا۔ یہ تمام کوشش ہم پچھلے چار سال سے کر رہے ہیں۔ پولیس اب غیر سیاسی ہو چکی ہے۔ اب وہ اپنی مرضی سے درست کام کرتی ہے۔ میں تو بڑے زمانے سے صوبوں کو کہہ رہا ہوں کہ پولیس کو بااختیار کر دیں۔ افغان مہاجرین کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ ہم شروع سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بارڈر محفوظ نہیں ہیں۔ یہ بارڈر بالکل کھلا ہوا تھا لوگ آزادی سے اِدھر اُدھر آتے جاتے تھے۔ اب وہاں فیسنگ کی جا چکی ہے۔ آرمی نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ جس سے حالات بہت بہتر ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جنگ معاملات کا حل نہیں ہے۔ ہم کلیئر ہیں کہ ہماری جانب کوئی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود نہیں دہشت گردی سے ہمیں نقصان پہنچ رہا ہے ہم ان کی کیونکر مدد کریں گے یہ بات عالمی طور پر بھی اٹھانی چاہئے۔ ہم تودہشت گردوں کے خلاف ہیں۔ ہمارے خلاف کوئی کرپشن کے ثبوت لے کر آئے ہم وضاحت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ لوگ غلط الزام لگاتے ہیں۔ ہم تو اوپن ہیں۔ یہاں احتساب کے ادارے ہی اینٹی کرپشن ہے۔ ماضی کے حکمران خود چوریاں کرتے رہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہر کوئی ان کے جیسا ہے اس لئے وہ ہم پر بھی الزام لگاتے ہیں۔ الزام لگانے والوں کے مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں اور اٹھ کر الزام لگا دیتے ہیں۔

قادیانیوں کا پاکستان میں اقلیت کی بجائے مسلمان کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا منصوبہ :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد“ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے مصحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ میں نے لندن اور بیلجیم میں اپنے دوستوں سے پوچھا اور دوسرے ملکوں سے بھی دوستوں سے پوچھا کہا جاتا ہے کہ قادیانی حضرات کی لیز کردہ ربوہ کی زمین کی مدت 2030 میں ختم ہونے والی ہے۔ یہ خبر گرم ہے پنجاب حکومت نے کسی مقام پر ان کے لئے جگہ مختص کر دی ہے یہ پیسے دے دیں گے اور وہاں سے سلسلہ شروع کر دیں گے اگر ان کو ربوہ سے جاری رکھنے کی اجازت نہ ملی تو بحرحال اس کا لیز 2030ءمیں ختم ہو گا۔ مراکش کے بارے کہا جاتا ہے کہ ایک لبرل ملک ہے۔ اسرائیل نے فارمولا بنایا کہ دھڑا دھڑ پیسے دو، زمینیں خریدو اور بعد میں وہ چوڑے ہو گئے کہ یہ ہمارا ملک ہے۔ اگر معلومات غلط ہیں تو احسن اقبال، رانا ثناءاللہ اور دیگر صاحبان اس کی تردید کر دیں میں مان لوں گا۔ معلومات یہ ہے کہ مراکش میں ایک علاقے میں بنی بنائی زمین، مکانات بلکہ ”ڈویلپ“ علاقہ قادیانی حضرات خرید رہے ہیں۔ نقد اور زیادہ پیسے دے کر خرید رہے ہیں۔ وہی فارمولا ہے جس کے تحت ”طل ابیب“ کو خریدا گیا تھا۔ قادیانی وہاں بسنا چاہتے ہیں۔ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ پاکستانی کچھ سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ 2018ءکے الیکشن میں ان سیاسی پارٹیوں کی مدد کریں گی قادیانی اقلیت ہے لیکن ان کاکوئی نمائندہ اسمبلی میں نہیں ہوتا۔ ملک بشیر الدین اور ان کے بھائی قادیانی سیٹ پر ایک مرتبہ الیکشن لڑے تھے۔ وہ کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ اس کا اخبار جو ربوہ سے چھپتا تھا۔ اس میں تردید کیگئی کہ قادیانیو ںکی جماعت نے انہیں کھرا نہیں کیا۔ وہ اپنے طور پر کھڑے ہوئے۔ قادیانیوں کیکوشش تھی۔ پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں کو اور کچھ سیاستدانوں کو پیش کش کی کہ آپ ہماری مدد کریں کہ ہم پر (غیر مسلم) کا یہ لیبل ختم کیا جائے۔ بقول ان کے وہ مسلمان ہیں۔ ہمیں مسلمان شہری کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا موقع دیا جائے۔ ان کی بات پر میں یقین نہیں رکھتا۔ معاف کیجئے جو کچھ اسمبلی میں ہوا۔ وہ درست نہیں تھا۔ میری تحقیق کے مطابق جو کچھ میں نے لندن سے نیو یارک سے معلومات حاصل کیں، اسی تحقیق کی وجہ سے یہ ساری معلومات میرے پاس آئیں۔ اگر خدانخواستہ یہ ترمیم پاس ہو جاتی اور اس کی مخالفت سامنے آتی تو یہی دعویٰ درست ثابت ہو جاتا۔ اگر غلط ہے تو اس کی تردید کر دیں۔ میں قبول کر لوں گا۔ راناثناءاللہ نے ہمارے پروگرام میں کہا کہ تردید کی کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان اور قادیانیوں میں فرق نہیں، ہمارا کام سچ کی تلاش ہے۔ میں نے تسلیم کیا کہ احسن اقبال کی فیملی پس منظر رکھتی ہے نواز شریف صاحب شہباز شریف صاحب ان کے والد محترم میاں شریف کو قریب سے دیکھا ہے۔ وہ دینی طور پر بہت سختی کرتے تھے۔ اپنے بچوں پر کہ صوم و صلوٰة کی پابندی کریں۔ وہ خود صبح کی نماز کے بعد اتفاق مسجد میں درس قرآن کے بعد دوپہر کے کھانے تک مسجد میں قیام کرتے تھے۔ شریف فیملی اور بالخصوص نواز شریف اور شہباز شریف خود دینی نظریات کے پکے حامی ہیں وہ کس طرح اس معاملے میں پھنس گئے۔ آپ تحقیق کریں وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہماری ان سیاستدانوں کے ساتھ ڈیل ہوئی تھی۔ اس سے بڑی خبر یہ ہے کہ انہوں نے معاہدہ کیا تھا کہ ہم 2018ءکے الیکشن میں شریک نہیں ہونگے۔ لیکن جو جماعتیں ہماری مدد کریں گی ہم مالی طور پر ان کی پوری مدد کریں گے۔ انہیں ووٹ بھی دیں گے۔ حکومتی پارٹی اس بات کی تحقیق کروائے کہ ساری دنیا میں یہ معاملہ اس وقت عام ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں ایسا کیوں ممکن ہوا۔ انوشہ رحمن، لاءگریجویٹ ہے اور اس کی فیملی بھی مذہبی بیک گراﺅنڈ رکھتی ہے۔ میں نے سنا انوشہ رحمن کو ایک ڈرافٹ موصول ہوا۔ کہ قادیانیوں کو کلیئر کریں۔ وہ مسلمان ہیں۔ انہیں اقلیت میںنہ ٹھونسا جائے۔ انہیں اوپن الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔ پارٹی ٹکٹ پر یا آراد حیثیت سے الیکشن لڑنے دیا جائے۔ یہ ڈرافٹ انوشہ رحمن کے سپرد ہوا۔ لیکن یہ کیسے ہوا کہ شریف فیملی، احسن اقبال، زاہد حامد جو دینی پس منظر رکھتے ہیں۔ وہ اس میں آگئے۔ شازیہ مری کا انٹرویو چھپا ہے کہ میں پارلیمانی کمیٹی کی ممبر تھی۔ وہ کہتی ہیںکہ زاہد حامد نے کہا یہ پوائنٹ چھوڑیں اس پر بات ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا اس کے منٹ موجود ہیں ہمیں اس کی ریکارڈنگ دیکھ کر بتایا جائے۔ مسلم لیگ ن کے نظام الدین سیالوی نے کہا ہے کہ پارٹی کے لیڈران دونوں صورتحال میں ذمہ دار ہیں، اگر ان سے پوچھا نہیں گیا تو بھی ذمہ داری اور اگر پوچھ کر ایسا کیا گیاتو بھی وہ ذمہ دار ہیں۔ جو اشخاص اس میں ملوث ہیں انکوائری ہونی چاہیے اور ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے۔ ہم دھرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم نے کسی بھی در پردہ سازش کا حصہ نہ بننے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ ہمارا ایک پوائنٹ ایجنڈا ہے۔ وہ ہے ناموس رسالت کے حوالے سے جو بھی ذمہ دار ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔ یہ خالصتاً ایمان کا معاملہ ہے۔ اس میں سیاست کا ایشو ہی نہیں ہے۔ یہ ایشو اب پرانا ہو گیا۔ وزیرقانون پنجاب کی طرف سے بھی بیانات آتے رہے۔ بلکہ ہر سال کوئی نیا بیان سامنے آ جاتا ہے۔ اس وجہ سے ہم کافی تشویش کا شکار رہتے ہیں جس سے ہم اپنی لیڈرشپ کو آگاہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن شاید وہ اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ واپس جانا ہی نہیں چاہتے۔ کچھ نہ کچھ ہمیں کرنا تھا۔ وہ کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اسمبلی میں اس پر ڈیبیٹ ہوئی کہ قادیانیوں کو سکول دئیے گئے ہیں۔ میرے دادا نے 1992ءمیں بیان دیا تھا کہ قادیانیوں کو کسی بھی اہم عہدے پر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم بھی اسی مو¿قف پر ہیں۔ وہ غیرمسلم ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی قادیاتی کو کسی ادارے کا ہید نہیں ہونا چاہیے۔ میں پچھلے نو دس سال سے پارٹی سے جڑا ہوا ہوں۔ جو بھی اس عرصہ میں متنازعہ چیز سامنے آئی ہے اس کے پیچھے رانا ثناءاللہ کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔

بھارت راوی ستلج میں فضلہ پھینکنے لگا ،زہریلاپانی اموات کا سبب ،معروف صحافی ضیا شاہد کے تہلکہ خیز انکشافات

نارووال(نمائندگان خبریں) کسانوں کو ایوارڈز دیئے،کسان ٹائم پروگرام شروع کیا،اب بھی” خبریں“سب سے زیادہ کسانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، تین دریا?ں کی مکمل بندش سے کسان طبقہ مسائل کا شکار ہوا، بھارت ستلج ،راوی مار رہا ہے،ان خیالات کا اظہارچیف ایڈیٹر” خبریں“ضیاشاہد نے نارووا ل زیلدار حویلی میں” کسانوں کے مسائل اور ستلج راوی کا ساراپانی بند“تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا،ضیاشاہدنے کہا کہ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے کہا کہ پاکستان میں2025میںپانی کی شدید کمی ہوجائے گی،میں نے کالا باغ ڈیم کے لیئے ہائیکورٹ میں درخواست دی ،آٹھ سال تک میری درخواست ہی نہ سنی ،سپریم کورٹ میں بھی افتخار چوہدری جو انصاف کی بات کرتے تھے انہوں نے بھی ہماری رٹ نہ سنی۔سندھ کا پانی کبھی بہت زیادہ کبھی بہت کم ہوتا ہے کبھی ہم سیلاب میں ڈوبتے ہیں تو کبھی پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیںلیکن اس کی بھی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ،قومی اسمبلی میں کسی ایک نے بھی بات نہیں کی ،انڈس واٹر ٹریٹی کا اردو ترجہ کروا رہا ہوں ،تاکہ اسے سارے پاکستانی پڑھ سکیں ،پاکستان میں ہزاروں وکلائ موجود ہیں لیکن کسی نے بھی یہ معاہدہ پڑھنے کی کوشش نہیں کی ،یہ عام لوگ بات کرتے ہیں کہ ہم تو عالمی سطح پر کیس ہار چکے ہیں لیکن اس کی وجہ ہماری سستی تھی ہم نے کیس بھی اسوقت فائل کیا جب انڈیا بیراج بنا چکا تھا ،مجھے سیاست کی ضرورت نہیں ،آپ تیار ہوجائیں اور ضروری وسائل جمع کریں تاکہ اندرون اور بیرون ملک عدالتوں میں اپنامقدمہ لڑ سکیں،انہوں نے کہا کہ بھارت نے معاہدہ کے تحت تو ہمارے تین مکمل دریا بند کر دیئے مگر اس کے چار گندے نالوں کو ہم نے سینے سے لگا رکھا ہے،کہاں گئے آبی انجیئنرز،کہاں گئے ایم این ایز ،ایم پی ایز کہ ہمارے لوگ مر رہے ہیں یہ بولتے بھی نہیں 1970کے واٹر کنونشن میں یہ باتیں طے ہیں کہ کوئی ملک کسی ملک کے دریا کا کوئی پانی نہیں روک سکتا ،لیکن بھارت یہ بات بھی نہیں مانتا ،یہ ارکان لاعلم ہیں اس لیئے وہ بولتے ہی نہیں ، جنوبی پنجاب اور سندھ کا وڈیرہ دریاوں کے سوکھنے پرپانڈ ایریاز پر قبضے کرچکا ہے ،مثال کے طور پر وہاڑی میںساڑھے تین سو ایکٹر زمین اکبر علی بھٹی نے لیز پر لے رکھی تھی،وہ اب تہمینہ دولتانہ کے خاندان کے پاس ہے ،ستلج ،راوی کی زمینیںکس کو ملی ہیں یہ بھی ایک بڑا ایشو ہے ،یہ زمینیں ایم این ایز،اور وڈیروں نے لے لی ہیں ،یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ،مقامی کاشت کار کو تو زمین لیز پر ملتی ہی نہیں،اب سیاستدانوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے،کہ ان کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ کسانوں کو اہمیت دینے کے لیے میں نے ہی کسان میڈل رکھوائے ،شوکت عزیز ،پرویزمشرف ،چوہدری شجاعت اور یوسف رضاگیلانی کے ہاتھوں کسانوں کو ایوارڈز دلوائے،اب زراعت صوبوں کی طرف چلی گئی ہے جس سے مسائل جنم لے چکے ہیں،انہوں نے عوام سے کہا کہ ابارکان اسمبلی کے پاس بھتیجے یا بھانجے کی نوکری کے لیے نہ جایا کریں ،قومی ایشوز پر بات کیا کریں اور سیاست دانوںکو مجبور کریں کہ وہ قومی ایشوز پر بات کریں۔

دھرنا ختم کرنا ہوگا رونہ یہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دے گا:رحمن ملک

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ ملکی حالات انتشار کے متحمل نہیں۔ حکومت اور علمائے کرام کو مشورہ دیتا ہوں کہ کچھ دو کچھ لو کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اس دھرنے کو پرامن طور پر ختم کریں، دشمن ہر طرف سے تاک لگا کر بیٹھا ہے۔ اگر یہ دھرنا ختم نہ کیا گیا تو پھیلے گا جس سے ملکی حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ جمہوریت کی بساط بھی لپیٹ دی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام میں معروف تجزیہ کار، کہنہ مشق صحافی ضیا شاہد کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ دھرنا دینا، احتجاج کرنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ لیکن قانون ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ دھرنے وغیرہ کے ذریعے عوام کی زندگی کو خراب کریں۔ میں نے اسٹینڈنگ کمیٹی میں ا س معاملہ پر ایکشن لیا اور آئی جی، کمشنر اور پولیس سے مکمل بریفنگ لی۔ اس وقت اسٹیٹ منسٹر صاحب بھی موجود تھے۔ اسٹیٹ منسٹری کے مطابق چار، پانچ سو افراد نے وہاں جا کر فاتحہ خوانی کرنے کی استدعا کی تھی لیکن وہاں جا کر انہوں نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے آگے حکومت کی پلاننگ چلنی تھی لیکن انہوں نے متبادل پلان نہیںرکھا اور حکومت انہیں ڈیل کرنے میں مکمل ناکام ہو گئی۔ پی پی پی دور میں لاکھوں کے دھرنے آئے لیکن عام آدمی متاثر نہ ہوا۔ اس وقت ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ ہائیکورٹ نے دھرنا ختم کرنے کا حکم دےرکھا ہے۔ یہاں بھی حکومت فیل ہو چکی اور عدالتی احکامات پرعمل نہیں کروا سکی۔ آج سپریم کورٹ بھی درمیان میں آ گئی ہے۔ اور سو موٹو لے لیا ہے۔ معاملہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے ”کچھ دو کچھ لو“ پر معاملات حل کر لئے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہیں کیا۔ حکومت پارلیمنٹ علماءکو اس پر اعتماد میں لے کر چلتی تو اچھا ہوتا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ آئین کی شق میں ترمیم کرنے والے ذمہ دار کو سامنے لایا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا قانون قوموں کو بدلتے ہیں۔ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کو پبلک کر دیا جائے تو بہت سی چیزیں کلیئر ہو جائیں گی۔ سپریم کورٹ کے سو موٹو کے بعد معاملہ اگلے چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈر ہے یہ دھرنا تحریک بن کر پورے پاکستان میں نہ پھیل جائے۔ اگر راجہ ظفر الحق کی رپورٹ پبلک کر دی جاتی ہے تو ذمہ داری ایک سے زیادہ افراد پر آ جاتی ہے۔ زاہد حامد صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری نہیں تھی اس لئے وہ استعفیٰ کیوں دیں۔ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ حکومت انہیں سامنے لے آئے۔ غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ملکی صورتحال کے پیش نظر حکومت کو کچھ دو کچھ لو کے تحت کام کرنا چاہئے۔ اس وقت ملکی حالات خراب ہیں بھارت اربوں روپے لگا کر مشرق میں اور بلوچستان میں بالخصوص ہمارے حالات خراب کرنے کے درپہ ہو چکا ہے حالات بہت نازک ہیں۔ بھارتمشرقی پاکستان والے حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تمام فریقین کو مل کر بیٹھنا چاہئے اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے۔ یہ اسلام یا پاکستان کی خدمت نہیں ہے۔ ان حالات سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ حکومت بھی لچک کا مظاہرہ کرے۔ یہ ریاست کا امتحان ہے۔ سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستانی اور سابق وزیر داخلہ ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کون ہوتا ہے جو ہمیں ”ڈکٹیٹ“ کرے۔ وہ کون ہوتا ہے کہ ہمیں بتائے کہ قوانین کیسے بنائے جائیں۔ ہم کیا ان کو کہتے ہی ںکہ اپنا قانون تبدیل کر دیں۔ ٹرمپ کے ایک وزیر کا قول ہے کہ ”اسلام ایک کینسر ہے دنیا کیلئے“ اس کرسچین مشیر کو بائبل کا چیپٹر پڑھنا چاہئے جس میں ہمارے نبی کی آمد کاتذکرہ ہے۔ اگر وہ بائبل پر حلف لینے کے بعد اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ تو آپ کا مائنڈ سیٹ پاکستان اور اسلام کے متعلق کسی سے مخفی نہیں ہے۔ آپ نے القاعدہ بنایا۔ آپ نے ان کو دہشت گرد قرار دیا۔ آپ نے داعش بنائی۔ یہ خود چیزیں بناتے ہیں انہیں طاقتوربناتے ہیں پھر وہ انہیں ڈستے ہیں۔ پھر ہماری قوم اور اسلامی برادری کوڈستے ہیں۔ آپ امریکہ میں بیٹھ کر ایک ایس ایچ او کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ تو پاکستانی قوم اسے ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔ ختم نبوت کا قانون بہت پہلے بن چکا حکومت کو اس بات کی وضاحت کرنی پڑے گی کہ اس وقت جب کہ مودی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا کہ پاکستان کے خلاف لابنگ کرے۔ سی پیک پر خود ڈونلڈ ٹرمپ کہتا ہے۔ ”ون روڈ ون بیلٹ“ قابل قبول نہیں ہے۔ یہ ساری چیزیں انہیں کرنے سے باز رہنا چاہئے انہیں اس کا حق حاصل ہی نہیں ہے۔ انسانی ناطے اور کسی بھی انٹرنیشنل قانون کے تحت انہیں یہ حق حاصل ہے پاکستان میں موجودہ تناﺅ کا فائدہ کوئی دشمن اٹھا سکتا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے علماءکرام کو قانون بنانے والے اشخاص کو پوری طرح آنکھیں کھول کر رکھنی چاہئیں۔ اور سوچنا چاہئے کہ ہمارا دشمن چاروں جانب سے نقب لگائے بیٹھا ہے۔ اگر ہم نے رسہ کشی کا خاتمہ نہ کیا تو ہم بہت لیٹ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں پکنے والی اس کھچڑی کے بانی پاکستان میں موجود ہیں یادیو جیسے اور بھی عناصر یہاں موجود ہیں۔ یادیو پر آے والے مودی کے پیغامات اور افغانستان میں اس کا کردار دیکھنا چاہئے کس طرح اس نے ٹرائیکا بنا لیا ہے۔ امریکہ کو ساتھ ملا کر اس نے دھمکیدی کہ بلوچستان کےر استے پاکستان کو سبق سکھائیں گے اس نے بلوچستان سے بھاگے ہوئے افراد سےبات چیت کیاس کا متن بھی جاری کر دیا۔ تھوڑے عرصہ بعد ان کے وزیردفاع نے بیانات دے کر ہم پاکستان کوسبق سکھائیں گے۔ ان ہی دنوں یادیو بھی پکڑا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی خبریں ہیں ڈاکٹر اللہ نذر کس کے کہنے پر کام کر رہا ہے؟ وہاں کون پیسے تقسیم کر رہا ہے۔ وہاں کی سٹوڈنٹ فیڈریشن کو کون آگے لا رہا ہے؟چاہ بہار سے انٹیلی جنس ہو رہی ہے قندھار سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو کس طرح بچانا ہے۔ اس کی حفاظت کس طرح کرنی ہے؟ پاکستان کونقصان پہنچانے والے عناصر سے ہم نے خود کو بچانا ہے۔آپ کی وساطت سے میں پرزور اپیل کروں گا۔ حکومت اور دھرنے والے دونوں سے۔ ان لوگوں سے بھی جو مصالحت کروانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس دھرنے کو ختم کریں ورنہ یہ دھرنا جمہوریت کو لپیٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی نے جب اقتدار سنبھالا تھا۔ اسی دن سے وہ چالیں چل رہا ہے۔ اس نے ہماری حکومت کو چکما دیا اور ایسے ظاہر کیا کہ وہ نواز شریف کے دوست ہیں۔ ہو سکتا ہے دوستی ہو بھی۔ لیکن جس انداز سے اس نے پاکستان کے ساتھ چال چلی۔ اپنے ”ہوم فرنٹ“ پر ا ور ”فارن فرنٹ“ پر بھی۔ مودی کا امریکہ میں داخلہ ممنوع تھا۔ اس نے چالاکی سے اپنا نام وہاں سے مٹوایا اور پہلی مرتبہ اوباما سے ملا اور وہاں جا کر یہ باور کروایا کہ پاکستان دہشتگردی کرواتا ہے۔ پاکستان صحیح ملک نہیں ہے اور جو کچھ بھی افغانستان میں ہو رہا ہے وہ پاکستان کروا رہا ہے۔ وہ لوگ پہلے ہی پاکستان کے خلاف بغض رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس کے نظریات کو فوراً قبول کیا۔ دوسری جانب دیکھیں ہمارے وزیر خارجہ جب وہاں گئے تو فارن آفس نے انہیں درست بریفنگ نہیں دی۔ کیونکہ حافظ سعید کے بارے کہا جا رہا تھا کہ وہ امریکہ گئے۔ حالانکہ وہ کبھی امریکہ نہیں گئے۔ میں انڈیا سے ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ تم جھوٹے ہو۔ تم نے کبھی درست شواہد انٹرنیشنل کورٹ میں پیش نہیں کیے۔ میں نے بھارت کو بہت سے خطوط لکھے۔ اس کے وزیراعظم کو بھی اور اس وقت کے وزیر خارجہ کو بھی۔ بھارت نے پروگرام بنایا جس کے تحت بہت پیسے اکٹھے کیے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی اداروں سے ٹکراﺅ کی صورتحال جاری رہی تو جمہوریت کا جہاز ڈوب جائے گا۔ جس سمت میں یہ جا رہے ہیں وہ درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ عدالت نے دینا ہے میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر حدیبیہ پیپر کیس اور حدیبیہ انجینئرنگ کیس کے چالان جو ایف آئی اے نے دئیے تھے اس وقت میں اس کا ڈائریکٹر تھا۔ اس کی سرپرستی میں نے کی۔ میری کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ میں بیورو کریٹ تھا۔ اپی ڈیوٹی پوری کی میرے خیال میں ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق جو بعد میں نیب کو بجھوا دی گئی تھیں۔ نواز شریف کی جائیداد جو بیرون ملک ظاہر ہوئی ہے اور دیگر لوگوں کے نام جو سامنے آئے ہیں کافی حد تک ان لوگوں کا تعلق ان سے نکل آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ حدیبیہ پیپر کیس سے نکلنے کےلئے شہباز شریف کو بہت محنت کرنی پڑے گی کیونکہ ان کا نام اس میں ہے۔ میں سب کا نام نہیں لینا چاہتا۔ اس وقت میں نے سب کے نام دئیے تھے۔ میں نے جے آئی ٹی کو تمام حقائق بیان کر دئیے تھے۔ میں نے انہیں طریقہ کار بھی بتایا کہ جس کے تحت اسے ”ری اوپن“ کیا جاسکتا تھا۔ وہ سمجھے کہ شاید میں ان کی فیور کر رہا ہوں۔ میں نے جو خط لکھا تھا۔ سپریم کورٹ کے سامنے جے آئی ٹی کا وہی خط ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس میں جو کچھ لکھا وہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ کورٹ کی کارروائی شروع ہوئی تو سب سے معاملات میرے درست ثابت ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ براہمداغ بگٹی ہو یا کوئی بلوچ لیڈر ہو وہ انڈیا کے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ میں نے براہمداغ سے بات کی۔ ہمارا تاجکستان میں ملنا طے ہوا انہوں نے کہا میں نیو دہلی جا رہا ہوں۔ نیا سال منا کر آپ کو تاجکستان ملوں گا۔ جب وہ واپس آیا تو میرے ذرائع نے بتایا کہ وہ کہتے ہیں انڈین کے مطابق اگر تم رحمن ملک سے ملے تو وہ مروا دے گا۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کتنا بھارت پر انحصار کرتے ہیں۔ اور بھارت ان کی کتنی فنڈنگ کر رہا ہے۔ 500 ملین ڈالر، مودی حکومت نے را کو دیا ہے جو اس نے بلوچستان میں گڑ بڑ کےلئے استعمال کرنا ہے۔ ڈاکٹر مالک نے اچھی کوشش کی حکومت کو ان کی بات ماننی چاہیے تھی۔ بھارت چاہے گا کہ صوبائیت کو ہوا ملے۔ پنجابی کو مارنا، بلوچی کو پکڑنا، سندھی کو قتل کرنا بھارت کا مین ایجنڈا ہے یہی کام اس نے مشرق پاکستان میں کروایا تھا۔ میڈیا اور دیگر لوگوں سے میری درخواست ہے کہ اسے روکیں کیونکہ بھارت یہی چاہتا ہے۔ دشمن ہمیشہ کمزور حصہ ٹارگٹ کرتا ہے۔ ایجنسیوں کو اور بہتر طریقہ سے کام کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ بلوچستان میں معاملے پر ”سوموٹو“ لے چکا ہے۔ بھارت بلوچستان میں ہر وہ کام کرے گا جس کے ذریعے وہ ہمارے یہاں سکیورٹی معاملات کو ہوا دے سکے۔

ختم نبوت بل کی منظوری قوم کی کامیابی بڑی سازش ناکام بنادی :سراج الحق


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) جمہوری نظام میں احتجاج کرنا عوام کا حق ہوتا ہے۔ حکومت اسلام آباد کے مظاہرین سے مذاکرات کیوں نہیںکرتی۔ امریکہ کون ہوتا ہے ہمارے قوانین میں مداخلت کرنے والا۔ حکومت ذمہ داران کو سامنے لانے سے کیوں جھجک رہی ہے۔ امیر جماعت اسلامی، سراج الحق نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ختم نبوت بل کی منظوری پر ہم سب خوش ہیں یہ قوم کی کامیابی ہے۔ ایک بڑی سازش کو ناکام کیا گیا ہے۔ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ تبدیلی کرنے والے ذمہ داران کو سامنے لایا جائے۔ یقینا یہ کوئی جن بھوت تو نہیں ہیں۔ وہ کوئی اہم اشخاص ہوں گے، اسلام آباد میں ہوں گے اور صاحب حیثیت ہوں گے۔ انہیںسامنےکیوں نہیں لایا جا رہا۔ وزیرقانون صاحب نے تو وضاحت کی کہ میں تو مسلمان ہوں، میرا عقیدہ درست ہے۔ لیکن وزیر قانون کی ذمہ داریہے کہ قوم کوبتائیں کہ کون لوگ اس کے پیچھے ہیں۔ خبر یہ آئی ہے کہ امریکہ نے کہا ہے کہ قانون میں تبدیلی کی جائے۔ وہ کون ہوتا ہے جو ہمارے ملک میں دخل اندازی کرتا ہے۔ یقینا بااثر لوگوں نے اسے لپیٹ کر چھپا کر ایک منظم طریقے سے پارلیمنٹ میں لے کر آئے ہیں۔ یہ کوئی نقطہ کا مسئلہ تو ہے نہیں باقاعدہ لکھا گیا پڑھا گیا ہو گا۔ آخر ذمہدار کون ہے۔ جمہوری نظام میں احتجاج کرنا۔ دھرنا دینا عوام کا اخلاقی حق ہوتاہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اسلام آباد کے دھرنے والوں، مذاکرات کرے۔ ان کے تحفظات دور کرے اور معاملہ حل کروائے۔ نمائندہ چینل ۵ اسلام آباد ضمیر حسین ضمیر نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں لبیک یا رسول اللہ کو دھرنا دیے ہوئے تقریباً گیارہ دن ہو چکے جس کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے حکومت نے نے دھرنے والوں کے 12 نقاط مان بھی لئے ہیں اور ختم نبوت کے بل کو اصل حالت میں بحال بھی کر دیا ہے۔ اس کے باوجود وہ دھرنا دئے بیٹھے ہیں۔ اب اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کے لوگ ہائیکورٹ کے احکامات لےکر یہاں پہنچ چکے ہیں۔ اور تازہ دم دستے پہنچ چکے ہیں۔ حکومت نے انہیں رات دس بجے کا وقت دےرکھا ہے کہ اس سے پہلے جگہ خالی کر دیں۔ احسن اقبال اور سعد رفیق دھرنے کے شرکاءسے رابطہ کر چکے ہیں اور مذاکرات کے دوران طے پایا ہے کہ ذمہ داران کو سامنے لایا جائے گا۔ مذاکرات ناکام ہونے کی وجہ سے دھرنا چائنہ چوک سے اٹھا کر فیض آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔ جمعہ کو انہوں نے ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ اسلام آباد انتظامیہ اب مکمل طور پر تیار دکھائی دیتی ہے۔ لگتا ہے دس بجے کے بعد کوئی کارروائی کی جائے گی اور دھرنے کے شرکاءکو منتشر کر دیا جائے گا۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان، میاں عبدالغفار نے کہا ہے این ایچ اے کے معاوضہ جات کا ایشو بہت بڑا ہے۔ یہ اپنی پتی طے کر کے لوگوں کو معاوضہ جات دلواتے ہیں۔ غریب اور ان پڑھ کتانوں کو یہ مختلف طریقوں سے اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ جن کے ساتھ ڈیل ہو جائے ان کی بنجر زمین کو باغ قرار دے دیئے ہیں اور جو ڈیل نہ کرے اس کے باغ کو بھی بنجر زمین بنا دیتے ہیں۔ ملتان، رشید آباد میں جب پُل بنایا گیا تو لوگوں سے اطراف کے مکانات لئے گئے تھے۔ کاغذات میں 64 فٹ جگہ دکھا کر 32 فٹ کے پیسے دیئے گئے ہیں اور آدھے 32 فٹ کے پیسے این ایچ اے کے اہلکاروں نے خود رکھے۔شجاع آباد روڈ کے ناظم کی دو بیویاں ہی ان کے اخراجات بھی ایسے ہیں۔ انہوں نے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کے گھپلے کئے ہوئے ہیں۔ زمین کے مشترکہ کھاتوں کے چکروں میں کروڑوں روپے کھائے گئے ہیں۔ یہ پانامہ سے بڑے کیسز ہیں۔ مشرف دور میں بننے والے نیب ادارے نے صرف اور صرف سیاسی کارروائیاں کی ہیں یہ کوئی احتساب کا ادارہ نہیںہے۔ مشرف دور میںلودھراں کے پٹواری کو پکڑا تھا۔ لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی چیئرمین این ایچ اے ذمہ دار ہوتا ہے شیڈولڈ کام کروانے کا لیکن ان کے تمام کام نان شیڈولڈ ہوتے ہیں۔ اعظم ہوتی نے پنڈی سے پشاور تک موٹر وے بنوائی۔ وہ اسے کروڑ دے کر صوابی لے گئے این ایچ اے ایک سیاسی ادارہ ہے۔ تمام اہلکار سیاسی طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے اہلکار دس فیصد کمیشن پر کام کرتے ہیں۔ ٹول پلازے اکثر غیر قانونی کام کر رہے ہیں۔ کار کا ریٹ 30 روپے ہے۔ کم از کم 35 اور زیادہ سے زیادہ 65 کلو میٹر پر ٹال پلازہ بنانے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ غیر قانونی ٹال پلازہ بنا لیتے ہیں اور علاقائی لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر جانے دیتے ہیں۔ لیگل ٹول پلازہ سے ایسے جا نہیں سکتے۔ نمائندہ خبریں لاہور رازش لیاقت پوری نے کہا ہے کہ این ایچ اے نے ایک منصوبہ 2001ءمیں شروع کیا جو بہاول پور سے کوٹ افضل تک اسے سیکشن 4 اور سیکشن 5 کہا جاتا ہے۔ یہ 2004ءمیں ختم ہوا۔ جس کے دوران ہزاروں ایکڑ زمین خالی کروائی گئی اور وعدہ کیا کہ معاوضہ جات ادا کئے جائیں گے۔ لیکن این ایچ اے کی کرپشن کی وجہ سے معاوضہ جات کی ادائیگی ممکن نہ ہو سکی کچھ لوگوں نے 30 سے 40 فیصد رشوت دے کر اپنے معاوضہ جات کلیئر کروا لئے لیکن 70 فیصد لوگوں کو ابھی تک ادائیگیاں نہیںہوئیں۔ تیرہ سال گزر جانے کے باوجود لوگ ان کے دفتروں کے دھکے کھا رہے ہیں۔ این ایچ اے کے اہلکار کرپٹ ہیں لوگوں کے کمیشن مانگتے ہیں۔ متاثرین زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں وقت اٹھانی پڑی۔ ایشو بڑھ گیا تو این ایچ اے والوں نے ریونیو رحیم یار خان (بہاولپور) کے سپرد ہر معاملہ کر دیا۔ اب وہ دوبارہ اسیس منٹ کروا رہے ہیں۔ کمشنر بہاولپور نے حکم دیا ہے کہ متاثرین کا کیس دوبارہ کھولا جائے۔ ایک خاتون اسمہ ظفر نے کیس بہاولپور ہائیکورٹ میں درج کروایا۔ جسٹس امیر حسین بھٹی نے این ایچ اے کے چیئرمین اشرف تارڑ کی بہت سرزنش کی اور 5 منٹ کے لئے ان کا منہ دیوار کی طرف کرنے کی سزابھی دی۔ ان جج صاحبان کی وجہ سے اس خاتون کو معاوصہ مل گیا۔ ملک شاہد صاحب نے ضیا شاہد سے درخواست کی کہ ہمارا ایشو اٹھائیں انہیں امید تھی کہ اس فورم سے ہمارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

دھند سے حادثے ،ہلاکتیں ،نیشنل ہائی وے اور وزیر موصلات کی کارکردگی صفر :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں نوامشریف اب تک پارٹی در ہیں۔ تمام پارٹی کے ارکان نے ان کے پاس جانا ہے شاہد خاقان عباسی بھی پارٹی کے رکن ہیں۔ اعتراضات کرنے والوں کے چند اعتراض قابل فہم ہیں وہ یہ کہ اسلام کا پنجاب ہاﺅس استعمال کرنا۔ وہاں پروٹوکول لینا نوازشریف کا حق نہیں لیکن ان کے چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب ان کے مقرر کردہ وزیراعظم موجود ہیں۔ میاں صاحب جس پر ہاتھ رکھیں وہی وزیراعظم ہے۔ وہی وزیراعلیٰ ہو گا جسے وہ کہیںگے۔ لہٰذا وہ بادشاہ ہی۔ شاہی خاندان ہی اسی طرح ہوتا ہے۔ وہ جو چاہے، اپنی مرضی کے مطابق کر سکتا ہے۔ میں نے ایک خط وزیراعظم کو لکھا ہے کاپی وزیر مواصلات کو بھی بھیجوں گا۔ تیسری کاپی نیشنل ہائی وے کمیشن کو بھی ہے۔ میں بہاولپور تک سڑک پر گیا راستے میں چھ گاڑیاں الٹی ہوئی یا فٹ پاتھ پر چڑھی ہوئی تھیں۔ میں نے یہ باتیں وزیراعظم کو لکھی ہیں۔ ایسے ایسے ملک ہیں جہاں چھ چھ دن بارشیں، فوگ، برف باری رہتی ہے۔ لیکن ان ملکوں میں بجلی نہیں جاتی۔ ساہیوال سے لاہور تک مجھے 7 گھنٹے لگ گئے۔ ہر بڑے شہر سے پہلے دو، دو ٹول ٹیکس لئے جاتے ہیں۔ لاہور سے ملتان تک کوئی ”ایرو“ یا ”یو ٹرن“ لکھا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ بندے دھڑا دھڑ مرے جا رہے ہیں اور مولوی عبدالقیوم صاحب، ارب پتی جن کا جنوبی پنجاب سے تعلق ہے۔ وہ کس چیز کا وزیر مواصلات ہے۔ اسے اتنا نہیں پتا کہ این ایچ اے وفاق کے انڈر میں آتا ہے وہ کیا کام کر رہا ہے۔ کسی اور ملک میں اگر ہلاکتیں ہوتیں تو وہ وزیراعظم اور وزیر موصوف پر قتل کا کیس کر دیتے۔ ہائی وے تو ہماری خونی سڑک ہے۔ کوئی سائن بورڈ کوئی ٹرن، کوئی علامت نہیں کہ کس طرح چلیں۔ میں سیاست کی بات ہی نہیں کرتا۔ خدا کرے نوازشریف شہباز شریف ہمیشہ قائم رہیں کم از کم ایشوز تو حل کریں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درست فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اس پر تحقیقات ہونی چاہئیں آپ بار بار مجھ سے کیا پوچھتے ہیں؟ پاکستان میں دو شاہی خاندان اقتدار میں ہیں ان کی باریاں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں جمہوریت تو نظر نہیں آتی۔ لہٰذا جمہوریت پر کیا بات کی جائے! ہمارے محکمے کام نہیں کرتے۔ پیسے بٹورتے ہیں۔ کروڑوں روپے وصول کر کے این ایچ اے والے سو رہے ہیں۔ انہیں کوئی حادثہ نظر ہی نہیں آتا۔ ٹول ٹیکس وصول کرنا یاد ہے۔ کوئی اشارے یاد نہیں۔ لاہور میں دس فٹ کے فاصلے پر پانی موجود تھا۔ 1960ءمیں انڈس واٹر ٹرسٹی ہوا لاہور میں دریائے راوی بہتا تھا۔ ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر ہم نے بھارت کا حق مان لیا۔ چناب جہلم اور سندھ پر انہوں نے ہمارا حق مان لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی معاہدہ کہتا ہے کہ ہم نے دریا نہیں بیچے۔ دریاﺅں کے زرعی پانی کا مسئلہ تھا۔ لیکن تین اور چیزیں تھیں جن کے لئے دریاﺅں کا پانی استعمال ہونا تھا۔ جو اس معاہدے میں درج ہیں۔ بھارت نے ایک شق شامل کروائی کہ جہلم اور چناب اور سندھ جو پاکستان کے حصے میں آئے ان میں بھی جہاں جہاں وہ بھارت سے گزرتے ہیں۔ وہ اس کا پانی زراعت کے لئے استعمال کرتا ہے۔ بھارت نے معاہدے میں یقین دہانی کرائی ہے اور وہ بھی کرتا ہے ہمارے نااہل لوگ دستخط کر دیتے ہیں معلوم نہیں ہوتا کہ اپنے حقوق کس طرح منواتے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹی کے رہنماﺅں سے کل بھی درخواست کی کہ پانی کے مسئلے پر ایک ہو جائیں اس میں سیاست نہ کریں۔ بھارت معاہدے کی رو سے راوی ستلج اور بیاس کا پانی بھی نہیں روک سکتا۔ جس میں آبی حیات، زراعت اور پین کے مقاصد کا پانی شامل ہے۔ راوی میں اب گٹروں کا پانی ڈالا جا رہا ہے۔ بھارت نے ستلج اور راوی کا مکمل پانی روک رکھا ہے۔ جس کا اسے اختیار نہیں ہے۔ دریا بہتا ہے تو زمین کے نیچے سطح اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے۔ جو پانی دس فٹ پر تھا۔ اب 650 فٹ نیچے جا چکا ہے۔ واسا کے ٹیوب ویل جو اب لگ رہے ہیں انہیں 1300 فٹ نیچے جا کر پانی ملا ہے۔ پانی کی ری چارجنگ ختم ہو گئی ہے۔ ہمیں بوتلوں کے پانی پر لگا دیا ہے۔ ستلج دوسرے نمبر پر بڑا دریا تھا۔ اس کا پانی بھی رک جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پورا چولستان بنجر پڑا ہے۔ جبکہ بھارت راجستھان کو آخر تک سیراب کر رہا ہے۔ 15 سے 20 فیصد ہی پانی آتا رہے تو آبی حیات اور پینے کا پانی ملتا رہے۔ 2020ءکے بعد پانی کی قلت کی وجہ سے قحط زدہ علاقے بن جائیں گے۔ تمام سیاستدان خاموش بیٹھے ہیں۔ ایوب خان اور اس کے رفقاءکار نے ہمارا مستقبل برباد کر دیا۔ یہ پانی کا معاہدہ کر کے۔ ایک اور خطرناک بات یہ کہ اس معاہدے کے مطابق بھارت کے چار گندے نالے یہاں آئیں گے اور ہم نے انہیں ”مین ٹین“ کرنا ہے۔ وہ ہمارا سارا صاف پانی لے گیا۔ 20 فیصد بھی نہیں چھوڑ رہا اور اپنا گندا پانی ہماری طرف بھیج رہا ہے۔ چنیوٹ کے قریب ایک گاﺅں ہے۔ جہاں گندے پانی کا نالہ جو بھارت سے آتا ہے۔ اس میں ایک بھینس گر کر مر گئی۔ اس گندے نالے میں بھارت اپنا صنعتی فضلا ڈالتا ہے اور پاکستان بھی اس میں ڈالتا ہے۔ بھینس کو بچانے کیلئے ایک خاندان کے پانچ بندے باری باری اس گندے پانی میں اترتے رہے اور مرتے رہے۔ ہمارے سیاستدان مال کمانے اور دوسرے ملکوں میں بھیجنے میں لگے ہوئے ہیں۔ قانون کے مطابق یہ صنعت کے ساتھ ”ٹریٹ منٹ“پلانٹ لگنا ضروری ہے۔ انڈس واٹر ٹریسٹی میں لکھا ہوا ہے کہ بھارت کی جانب سے آنے والے آلودہ اور گندے پانی کو ہم روکیں گے نہیں بلکہ اسے محفوظ کریں گے۔ ہم اس کے پابند ہیں۔ یہ معاہدہ قابل قبول ہے؟ ہم نے ملتان میں کسان مشاورت کے نام سے ایک میٹنگ بلائی اس میں یوسف رضا گیلانی آبی وسائل کے وفاقی وزیر جاوید علی شاہ صاحب بھی موجود تھے۔ اکثر لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ آبی وسائل کی وزارت بھی موجود ہے۔ ممتاز بھٹو نے کسی نہ کسی پارٹی میں تو جانا ہی تھا۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو نے کان سے پکڑ کر نکال دیا تھا۔ آصف زرداری قریب تک نہیں آتے۔ انہوں نے سندھ نیشنل فرنٹ کے نام سے دیگر قوم پرست جماعت بنا رکھی ہے۔ وہ کبھی جیتی نہیں۔ وہ پہلے ن لیگ میں گئے اب انہوں نے تحریک انصاف جوائن کر لی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ اور سابق گورنر آہستہ آہستہ ن لیگ کو چھوڑتے رہے کیونکہ وہ آصف زرداری کو ساتھ ملا رہے تھے۔ اب ممتاز بھٹو کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں لہٰذا وہ اس میں آ گئے۔ ماہرقانون، ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ جسٹس کھوسہ پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکے ہیں وہ انہیں مافیا قرار دے چکے ہیں کہہ چکے ہیں کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ حالیہ فیصلے ہیں لہٰذا انہوں نے اب درست کہا کہ وہ کس طرح اس معاملے کو سنیں۔ سیاستدانوں کی کرپشن اور مسائل کی وجہ سے حکومت نام کی چیز نظر نہیں ااتی۔ انہیں اپنے جھگڑے نظر ااتے ہیں۔ عوام کے مسائل دکھائی نہیں دیتے۔ شاہی کام ایسے ہی ہوتے ہیں جس میں کام کی بجائے اپنی شان و شوکت کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔ سڑکیں ٹھیک کرنا۔ ایشوز حل کرنا ہمارے سیاستدانوں کا مقصد نہیں۔

بھارتی آبی دہشتگردی ،انڈس واٹر ٹریٹی وہ ستلج ،بیاس اور راوی کے 100فیصد پانی کا مالک نہیں :ضیا شاہد

لاہور (رپورٹنگ ٹیم) بھارت ستلج، بیاس اور راوی کا پانی سوفیصد بند نہیں کرسکتا، سندھ طاس کا معاہد ہ 1960 میں ہوا تھا،یہ تاثر غلط ہے کہ ہم نے دریا بیچ دیئے، ہم نے تو دریاﺅں کے زرعی پانی کا معاہدہ کیا تھا،سندھ ،جہلم اور چناب کا زرعی پانی پاکستان کے حصے میں آیا اور ستلج،راوی اور بیاس کا زرعی پانی انڈیا کے پاس چلا گیا،مگر بھارت ستلج ،راوی اور بیاس کا سارا پانی بند کر کے دریاﺅں کو مار رہا ہے ہم بھارت کی آبی دہشت گردی پر چپ نہیں بیٹھیں گے ان خیالات کا اظہار معروف دانشور صحافی و چیف ایگزیکٹیو خبریں گروپ ضیاشاہد نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں بطور مہمان خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا انڈیا تویہ بھی زیادتی کر رہا ہے کہ ہمارے حصے میں آنے والے دریاﺅں پر بھی زراعت کے لئے ڈیم بنا رہا ہے، لیکن ہمارے کسی نئے ڈیم کے خلاف مہم چلاتا ہے اور یہ پروپیگنڈا بھی کرتا ہے کہ پاکستان کو پانی کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ ڈیم نہیں بناتا اور پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کرتا ہے انہوں نے کہایہ انٹرنیشنل لا ءہے کہ دریاوں میں تھوڑا تھوڑا پانی چھوڑا جاتا ہے کیونکہ مکمل پانی بند ہونے کی وجہ سے پینے کا پانے بہت نیچے چلا جاتا ہے اورآبی حیات اور ماحولیات کی بھی تباہی ہوجاتی ہے،ستلج مکمل خشک ہو چکا ہے، راوی اور بیاس میں پانی مکمل بند ہے، پاکستان بننے سے پہلے نواب آف بہاولپور نے ستلج ویلی پروجیکٹ کے تحت چولستان میں کچھ نہریں بنائیں، مگر ستلج کے مکمل بند ہونے کی وجہ سے وہ نہریں بھی تباہ ہوگئی ہیں اور بہاولپور،رحیم یار خان اور بہاولنگر اور پاکپتن،ساہیوال اور لودھراں متاثر ہوئے ہیں، نواب آف بہاولپور نے کہا تھا، چولستان اور ریاست کے باقی اضلاع پاکستان کی فوڈ باسکٹ ہوگی مگر پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے، بیکانیر ریاست اور بہاولپور کے درمیان بھی پانی لینے کا معاہدہ ہوا۔ انڈیا نے ستلج بند کیا تو ساری نہروں کا رخ راجھستان کی طرف موڑ کر اسے سرسبز شاداب بنا دیا گیا جبکہ ہماراچولستان ٹوٹل بنجر ہوچکا ہے ۔محکمہ صحت کی رپورٹ ہے کہ بہاولنگر میں گردے کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، آرسینک کی مقدار بڑھ گئی ہے اب کرنا کیا ہے؟جبکہ راوی تو سیوریج کا دریا بن چکا ہے،جس کا ایک گھونٹ بھی منہ کو نہیں لگایا جاسکتا۔ انہوں نے کہا 1970ءکے انٹرنیشنل واٹر کنونشن رولز کے مطابق بھی کوئی ملک دریاﺅں کو مکمل بند نہیں کرسکتا ،اس لیے بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ کم از کم بیس فیصد پانی ان دریاﺅں میں چھوڑے، ضیاشاہد نے کہا ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدہ پر جانے سے قبل ایک ملاقات میں کہا تھا کہ معاہدے صرف کاغذ کا ٹکڑا ہوتے ہیں جنہیں کسی وقت بھی پھاڑا جاسکتا ہے لیکن ہمیں سندھ طاس معاہدے کوپھاڑنا تو نہیں چاہیئے مگر انڈیا پر اتنا عوامی پریشر ڈالا جائے کہ وہ ان دریاﺅں میں پانی چھوڑنے پر مجبور ہوجائے،تقریب کی نظامت کے فرائض سکرٹری شاہد رشید نے ادا کیے، تقریب میں شرکاءکی کثیر تعداد موجود تھی جن میں مختلف یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباءوطالبات بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی میں واضح طور پر درج ہے کہ بھارت جہلم چناب اور سندھ جن بھارتی علاقوں سے گزرتا ہے وہاں اسے پینے کےلئے پانی، ماحولیات کےلئے پانی اور آبی حیات کے لئے پانی لینے اور استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ جب اپنے لئے اسی معاہدے کے تحت یہ تینوں قسم کا پانی جائز قرار دیتا ہے جو پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاﺅں سے لیا جا رہا ہے تو ہمارے غیر زرعی استعمال کےلئے ستلج بیاس اور راوی سے ماحولیات، آبی حیات اور پینے کا پانی کیوں بند کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1970 کے انٹرنیشنل واٹر معاہدے کے تحت دریا کے زیریں حصے میں خواہ وہ کسی ملک کے حصے میں ہو 100فیصد پانی بند نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کاشتکاروں اور شہریوں سے اپیل کی کہ جو سہولت جہلم ستلج اور بیراج سے حاصل کر رہا ہے وہی سہولت بیاس اور راوی میں پانی چھوڑ کر پاکستانیوں کو دی جائے۔ انہوں نے کہا یہ بات بھی غلط ہے کہ ہم نے دو دریا بھارت کے ہاتھ بیچ دئیے تھے۔ سندھ طاس معاہدہ میں صاف درج ہے کہ یہ دریاﺅں کا معاہدہ نہیں جنہیں پورا کسی ایک ملک کے سپرد کیا جا سکے بلکہ زرعی صاف پانی کا معاہدہ ہے چنانچہ بھارت راوی اور ستلج کا جو حصہ ہمارے ملک میں سے گزرتا ہے اس میں آبی حیات ماحولیات اور پینے کےلئے پانی چھوڑنے پر مجبور ہے اور ہم انٹرنیشنل کنونشن کے بتائے ہوئے قوانین کے تحت عالمی عدالت میں جا سکتے ہیں جو اب پوری دنیا کے ہر ملک میں تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ضیاشاہد نے کہا کہ 100فیصد پانی کی بندش سے ستلج اور راوی سے ری چارجنگ ختم ہو گئی ہے اور پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔ ریاست بہاولپور کے تین اضلاع میں پانی 100 فٹ سے زیادہ گہرے پانی میں بھی سنکھیا کی آمد شروع ہو گئی ہے جس سے جگر گردے کے امراض اور یرقان اور کینسر تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ اس صورتحال کو بھارت کی آبی جارحیت نہ کہا جائے بلکہ یہ آبی دہشتگردی ہے۔ جو ہمیں پینے کا پانی، درختوں، سبزے اور آبی حیات سے محروم کر رہی ہے۔ پاکستانی اور بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمے دائر کریں۔

چیئرمین نیب ،چیف جسٹس سپریم کورٹ ،شوکت عزیز ،میاں منشاء،ہاشوانی پر مقدمہ چلائیں :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے مصحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس آنے کے بعد ایکشن تو ہوا لیکن سلیم سیف اللہ خاندان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان کی 20 یا 22 آف شور کمپنیاں تھیں۔ میں نے سلیم سیف اللہ کو فون کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بری محنت سے صنعتیں لگائیں تھیں اور تمام ٹیکس ادا کئے ہیں ہم ٹیکس چور نہیں نہ ہی کوئی غیر قانونی کام کیا۔ آف شور کمپنیاں بنانا کوئی عیر قانونی کام نہیں۔ ان کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے تاہم نیب کو انہیںبھی طلب کرنا چاہئے۔ شوکت عزیز پر پہلا الزام یہ تھا کہ پرویز مشرف نے انہیں ”سٹی بینک نیویارک“ سے طلب کیا تھا۔ شوکت عزیز نے قبول کیا کہ وہ پہلے بھی پاکستان آتے رہے۔ اور نوازشریف نے وزیراعظم کی حیثیت سے ان سے مشاورت بھی کی۔ جب انہیں وزیرخزانہ مقرر کیا گیا تو اس وقت بھی ان پر کچھ الزامات لگے۔ ان میں سے ایک الزام یہ تھا کہ جب وہ وزیراعظم بنے انہوں نے اسٹیل ملز کو بھیجنے کی کوشش کی تھی۔ الزام یہ تھا کہ یہ اپنی مرضی کے بندے کو، یعنی فرنٹ مین کے ذریعے اسے بیچنا چاہتے تھے۔ شاید کسی انڈین پارٹی کے ہاتھوں فروخت کر رہے تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اس کی فروخت روک دی گئی۔ پیراڈائس لیکس میں ان کا نام آنے سے ثابت ہوا تو ان پر الزام درست تھے۔ یہاں سے جانے کے بعد وہ اسے غائب ہوئے جیسے ”گدھے کے سر سے سینگ“ بعد میں پتا چلا کہ وہ بھارت کے لئے بہت سے کاروبار کو لندن میں دیکھ رہےہیں۔ ان کے خلاف الزامات ہیں تو ادارے انہیںپاکستان لے کر آئیں۔ شوکت عزیز بھی چھپنے کی بجائے خود کو احتساب عدالت میں پیش کر کے کلیئر کرا لیں الیکشن لڑتے وقت شوکت عزیز نے اپنے اثاثے نہیں دکھائے تھے۔ میاں منشا کا نام بھی پیراڈائز لیکس میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میری فیملی باہر مقیم ہے۔ اس لئے وہ پاکستانی قانون کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ وہ ایک امیر ترین آدمی ہیں ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ ایم سی بی بینک میاں نوازشریف نے انہیں اونے پونے دیا تھا۔ وہ پاکستان کے امیر ترین انسان ہیں۔ وہ بھی خود کو کلیئر کروائیں۔ ان کے خلاف اداروں نے الیکشن لیا تو نوازشریف نے انہیں روک دیا تھا۔ اس وقت نیب چیئرمین جاوید اقبال کا امتحان ہے کہ وہ پیراڈائز لیکس میں آنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔ اس میں بہت بڑے بڑے لوگوں کے نام آئے ہیں برطانیہ کی ملکہ اردن کی ملکہ اور سعودی شہزادوں کے نام بھی آ گئے ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کام اب بڑھ گیا ہے۔ اس لیکس کے بعد اب انہیںچیلنج سمجھ کر کارروائیاں کرنی ہوں گی۔ ملکہ برطانیہ اور سعودی فرماروا۔ قطری شہزادہ بھی اس میں شامل ہیں۔ قطری شہزادہ بھی اپنے ملک سے پیسہ باہر لے گئے اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ میڈونا کو ان لوگوں میں شامل کرنا درست نہیں اس نے تو ناچ گانا کر کے لوگوں کی جیب سے پیسے حاصل کئے۔ اس کے مقابلے میں وزیراعظم، وزیرخزانہ، وزیر خارجہ، ملکہ، شہزادے، ٹرمپ کے 11 ساتھی وہ لوگ ہیں جنہیں لوگ اپنے مفاد کے لئے آگے لاتے ہیں اور امانت دار بناتے ہیں امریکہ میں کانگریس اہلکار وزیر نہیں بن سکتے۔ صدر اپنی مرضی سے شفاف اور دیانت دار لوگوں کو آگے لاتا ہے۔ ٹرمپ کے 11 ساتھیوں کے نام اس میں آئے ہیں۔ یہ ٹرمپ کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ سعودی عرب کا ہم سب احترام کرتے ہیں۔ ان کے اداروں کا احترام کرتے ہی میری فیملی 20 سال مدینہ منورہ میں رہی۔ وہاں ایک عام شرتہ کسی کو پکڑے تو اسے کوئی چھڑوا نہیں سکتا۔ افسوس ہوا یہ سن کر کہ وہاں کے شہزادوں اور بادشاہ کے بچوں اور رشتہ داروں کے نام بھی اس لیکس میں آ گئے ہیں۔ سعودی عرب میں مقامات مقدسہ ہیں۔ وہاں کے امام کا بھی ہم بہت احترام کرتے ہیں اگر وہ امام یہاں آ جائیں تو ہم خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے نماز پڑھیں دنیا کے بڑے بڑے کاروبار ان شہزادوں کے ہاتھ میں ہیں۔ پراپرٹی ہو چاول کی درآمد ہو۔ یا کوئی اور بڑا کاروبار پوری دنیا میں سعودی شہزادوں کے کاروبار پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمارے دلوں میں ان کے بہت احترام ہیں۔ ٹرمپ آیا تو سعودی فرماروا اسے چھوڑ کر نماز پڑھتے چلے گئے۔ ہم انہیں اس احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پیراڈائز لیکس کے ایک کروڑ دستاویزات ہیں۔ جو باقاعدہ دستخط شدہ ہیں۔ اس میں نام آنے کے بعد کوئی کسی طرح جھوٹ بول سکے گا کہ یہ اس کا اثاثہ نہیں ہے۔ اب آپ کہتے رہیں کہ ”مجھے کیوں نکالا“ ہمیں انتظار کر لینا چاہئے کہ عدالت میاں نوازشریف کے بارے فیصلے دیدے۔ اگر وہ بے گناہ ہیں تو سر آنکھوں پر اگر عدالت انہیں قصور سمجھ کر سزا دیتی ہے تو ہم کہیں گے کہ انہیں زیادہ سزا دیں کیونکہ ہم نے انہیں اہل سمجھ کر چنا تھا۔ ہم خوش تھے کہ سعودی فرماروا نے جن کو پکڑا ہے۔ وہ سیاسی اختلاف نہیں بلکہ شہنشاہی اختلاف ہے۔ جس کی ٹوٹی کسنی تھی۔ اور اسے مروڑنا تھا اسے پکڑا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ عام بات ہےکہ سیاسی مقاصد کیلئے ان لوگوں کو پکڑا گیا ہے۔ اگر ان مقاصد کے لئے نہیں بھی پکڑا گیا تو ہم واہ واہ کر رہے تھے کہ سعودی فرما روا نے کمال بیان دیا ہے کہ جو بھی غلط کرے گا میں اس کو پکڑوں گا۔ ان کے اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔ فارن میڈیا ضرور مزید کھوج نکال لے گا کہ سعودی شہزادے طلال ولید کا اصل قصہ کیا ہے۔ ٹرمپ کی بیٹی، امریکہ میں وسیع کاروبار انہی شہمادے کا ہے اصل دلکشی مال کی ہوتی ہے۔ امریکی خاتون صدر کی بیٹی ہو یا ملکہ یا کوئی اور شہزادی وہ بھی مال پر مرتی ہے۔ گجرات کے ایک فراڈیے کے بہت قصے مشہور ہوئے۔ اس کے بہت بڑے بڑے کاروبار تھے جہاز بھی کھرے تھے اور نہ جانے کیا کیا تھا۔ یہاں آئے تو نعیم بخاری کا گھر صاف ہو گیا۔ وہ بُری شکل کا آدمی تھا۔ لیکن عورتیں اس پر مرتی تھیں۔ روپیہ سب کچھ چھپا لیتا ہے۔ میںحیران ہوں جس طرح خواجہ آصف نے روپ بدلا ہے۔ ان کے بیانات فوج کے لئے بہت سخت آتے رہے۔ امریکہ گئے تو کہتے ہیں ہم آپ کے حکم پر جہاں کہیں گے بمباری کریں گے۔ حافظ سعید کا مدرسہ ہو یا منصورہ ہو۔ جہاں امریکہ بہادر رہے گا ہم حکم مانیں گے اور وہاں بمباری کریں گے۔ یہ قمر جاوید باجوہ کی میزبانی ہے یا خدا نے ان کے دل میں کئی چمک ڈال دی کہ وہ بالکل ہی بدل گئے بلکہ الٹ ہو گئے۔ معلوم نہیں اب انہیں کہنا چاہئے ”کوئی شرم ہوتی ہے۔ کوئی حیا ہوتی ہے“ لیکن پھر بھی ہم ان کی تعریف کرتے ہیں کہ شاید ملکی مفاد کی وجہ سے۔ انہوں نے امریکہ بہادر کو تھوڑی تھوڑی آنکھ دکھانا شروع کر دی ہے۔ خواجہ صاحب کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے دکھائی دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ”نو ڈو مور“ امریکہ انڈیا کو منع کرنے کہ اس کا اثررسوخ افغانستان میں کیوں بڑھ رہا ہے۔ ہم اسے قبول نہیں کرتے چودھری برادران حلیم طبع کے انسان ہیں۔ کبھی ان کی طبیعت میں اکڑ اور غصہ دکھائی نہیں دیا۔ وہ عدالت میں پیش ہو گئے۔ وہ اپنے سوالات کا جواب دیں گے۔ عدالت جتنے سوال پوچھے انہیں جواب دے دینا چاہئے۔ ان کے والد ظہورالٰہی نے کبھی عدالت میں مات نہیں کھائی۔ وہ ہمیشہ عدالت سے جیت گئے۔ اسی طرح چوہدری برادران عدالت کے 75 چھوڑ 150 سال بھی ہوں تو اس کا جواب ضرور رہی۔