Tag Archives: assembly

بلوچستان کی سینیٹ کی نشست پر ضمنی انتخاب کا نتیجہ آ گیا ، کس پارٹی کا رہنما جیت گیا ؟ بڑی خبر آ گئی

کوئٹہ (ویب ڈیسک )بلوچستان کی سینیٹ کی نشست پر ضمنی انتخاب کا غیر حتمی و غیر سرکاری نتیجہ سامنے آ گیاہے جس کے مطابق بی اے پی کے منظور کاکڑ نے میدان مار لیا ہے۔تفصیلات کے مطابق 65 نشستوں پر مشتمل بلوچستان اسمبلی میں 63 ووٹ کاسٹ ہوئے جس میں سے 38 ووٹ لے کر منظور کاکڑ نے کامیابی سمیٹی جبکہ بی این پی کے غلام نبی مری نے 23 ووٹ حاصل کیے اور دوسرے نمبر پر ہے تاہم پشتونخوا میپ کے امیدوار محمد حنیف کو صرف ایک ہی ووٹ ملا۔65 میں سے 63 ووٹ کاسٹ ہوئے جس میں سے ایک ووٹ مسترد ہوا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سردار یار محمد رند اور رکن اسمبلی نواب ثنااللہ زہری نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔

سپیکر قومی اسمبلی کی زیرصدارت پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بے نتیجہ ختم

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) پارلیمانی رہنماؤں کےاجلاس میں نئی حلقہ بندیوں کیلئے آئینی ترمیم پر کوئی پیشرفت نہ ہوسکی، اٹارنی جنرل، شماریات ڈویژن اور الیکشن کمیشن حکام کی بریفنگ بھی اپوزیشن جماعتوں کو مطمئن نہ کر سکی۔ تفصیلات کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم پر ڈیڈلاک برقرار، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا، پی ٹٰی آئی نے بھی اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ سپیکر ایاز صادق نے کہا حلقہ بندیوں سے متعلق مزید مشاورت کیلئے اجلاس بدھ کو بھی ہو گا، سب سیاسی جماعتیں قیادت سے مشاورت کر کے جواب دیں گی۔

قومی اسمبلی کی 272 جنرل نشستیں برقرار رکھنے کا فیصلہ

اسلام آباد (آئی این پی) پارلیمانی رہنماﺅں کے اجلاس میں قومی اسمبلی کی 272جنرل نشستیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،آبادی کے تناسب سے قومی اسمبلی میں پنجاب کی 7نشستیں کم ہوگئیں، نئی حلقہ بندیوں سے نشستیں نہیں بڑھیں گی تاہم بلوچستان، کے پی کے اور اسلام آباد کی ایک سیٹ بڑھے گی،خیبر پختونخواہ کی قومی اسمبلی میں 5 نشستوں کا اضافہ ہوگا جن میں 4 جنرل اور ایک مخصوص نشست شامل ہے۔ بلوچستان میں مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 3 نشستوں کا اضافہ ہوگا جن میں2 جنرل اور ایک مخصوص نشست شامل ہے، اسلام آباد کی ایک نشست کا اضافہ کیا جائے گا جب کہ سندھ کی قومی اسمبلی میں موجودہ نشستیں برقرار رہیں گی پارلیمانی پارٹیوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ جمعرات یا جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق بل منظور کرایا جائے گا جس کے بعد بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔ تحصیل لیول کا ڈیٹا آج ہونے والے اجلاس میں پیش کیا جائے گا، پارلیمانی رہنماﺅں کا اجلاس کے دس بجے ہوگا پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے کہا کہ مردم شماری پر اعتراضات ہمیں بھی ہیں فائنل نتائج آنے سے پہلے مکمل کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق نئی حلقہ بندیوں بارے قانون سازی رواں ہفتے میں ہونا ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن حکام نے پارلیمانی رہنماﺅں کو ڈیڈ لائن دے دی۔ایک ہفتے میں قانون سازی نہ ہوئی تو نئی حلقہ بندیوں پر الیکشن ممکن نہیں ہو گا، مردم شماری عبوری رپورٹ پر نئی حلقہ بندیاں کرنے کے لیئے آئینی ترمیم درکار ہے۔ عبوری رپورٹ پر حلقہ بندیوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا،حتمی رپورٹ اپریل میں آئے گی، عبوری رپورٹ نتائج سے زیادہ سے زیادہ فرق دو فیصد تک کا ہو گا۔ منگل کو نئی حلقہ بندیوں پر اسپیکر قومی اسمبلی کی زیرصدارت پارلیمانی رہنماﺅں کا اجلاس ہوا جس میں 2017 کی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں نئی حلقہ بندیوں پر غور کیا گیا،اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ اجلاس میں بڑی سیر حاصل بحث ہوئی اور نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق رائے ہوا، سب پارٹیوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جمعرات اور جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق بل منظور کرایا جائے گا جس کے بعد بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔ نئی حلقہ بندیوں سے نشستیں نہیں بڑھیں گی تاہم بلوچستان، کے پی کے اور اسلام آباد کی ایک سیٹ بڑھے گی۔ نئی مردم شماری کے بعد قومی اسمبلی کی نشستوں میں صوبوں کی نمائندگی کے تناسب کے تعین کے لیے آئینی بل تیار کرلیا گیا ہے جب کہ پارلیمانی رہنماﺅں نے بل کی اصولی منظوری بھی دے دی ہے۔ بل کے متن کے مطابق قومی اسمبلی میں پنجاب کی 9 نشستیں کم ہوجائیں گی جن میں7 جنرل اور 2 مخصوص نشستیں شامل ہیں۔ خیبر پختونخواہ کی قومی اسمبلی میں 5 نشستوں کا اضافہ ہوگا جن میں 4 جنرل اور ایک مخصوص نشست شامل ہے۔ بلوچستان میں مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 3 نشستوں کا اضافہ ہوگا جن میں2 جنرل اور ایک مخصوص نشست شامل ہے، اسلام آباد کی ایک نشست کا اضافہ کیا جائے گا جب کہ سندھ کی قومی اسمبلی میں موجودہ نشستیں برقرار رہیں گی۔ اجلاس میں خورشید شاہ، نوید قمر، غوث بخش مہر، غلام احمد بلور، محمود اچکزئی، فاروق ستار چیئرمین نادرا، سیکرٹری الیکشن کمیشن اور محکمہ شماریات کے حکام نے شرکت کی۔ اس موقع پر زاہد حامد نے پارلیمانی رہنماں کو حلقہ بندیوں کے معاملے پر حکومتی موقف پر بریفنگ دی اور پارلیمانی رہنماں سے تجاویز بھی مانگیں۔ واضح رہے کہ اس وقت قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں سے 272 نشستوں پر اراکین براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں مذہبی اقلیتوں کے لیے 10 اور خواتین کے لیے 60 نشستیں بھی مخصوص ہیں، جنہیں 5 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے درمیان نمائندگی کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ تحصیل لیول کا ڈیٹا آج ہونے والے اجلاس میں پیش کیا جائے گا، پارلیمانی رہنماﺅں کا اجلاس کے دس بجے ہوگا، 272 نشستوں میں اضافہ نہیں ہوگا، کچھ صوبوں میں سیٹیں کم ہوں گے اور بڑھیں گی، مختلف جماعتون کے اعتراض پر نظر ثانی کر رہے ہیں، صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں نہیں بڑھیں گی، ہم کوشش کریں گے اس ہفتے فائنل کر کہ اسمبلی میں پیش کریں۔

آخر کار حکمرانوں نے گھٹنے ٹیک دیئے

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) حکومت اور اپوزیشن نے انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کے دوران کاغذات نامزدگی فارم کے حلف نامے میں ہونے والی تبدیلی کو دوبارہ اصل شکل میں لانے پر اتفاق کیا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے مطالبہ کیا ہے کہ ترمیم لانا ہی ہے تو شق 203کو بھی ختم کریں۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمانی رہنماﺅں کے اجلاس ہوا جس میں شیخ صلاح الدین، اکرم درانی، شاہ محمود قریشی، مولانا امیرزمان اور دیگر پارلیمانی لیڈر شریک ہوئے۔ الیکشن بل میں امیدواروں کے حلف نامے میں الفاظ کی تبدیلی سے پیدا صورتحال پر غور کیا گیا، اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈران نے فیصلہ کیا کہ کاغذات نامزدگی میں حلف نامے کو اس کی اصل شکل میں لایا جائےگا۔اجلاس کے بعداسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور پارلیمانی رہنماﺅں نے میڈیا سے بات چیت کے دور ان بتایا کہ حکومت اور اپوزیشن نے حلف نامہ اصل شکل میں واپس لانے کے لئے ترمیمی بل پراتفاق کیا ہے ۔سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ گزشتہ دو دن سے انتخابی اصلاحات بل 2017ءمیں حلف کے معاملے پر بحث ہو رہی ہے، گزشتہ روز میری طبیعت ناساز تھی، آج جب ایوان میں آیا تو اس حوالے سے سوچا کہ سب کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانا چاہئے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اعلان کیا کہ تمام پارلیمانی لیڈرز 11 بجے میرے چیمبر میں آئیں تاکہ جو غلطی ہوئی ہے اس کو درست کیا جاسکے۔ سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ یہ ایک ٹیکنیکل غلطی تھی، میں تمام پارلیمانی لیڈرز کا شکر گزار ہوں سب نے سر جوڑ کر معاملے کا حل نکالنے کی کوشش کی۔ حلف نامے کو اصل صورت میں بحال کیا جائےگا اور آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس حوالے سے ترمیمی بل ایوان سے منظور کرایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی غلطی کا احساس ہو اس کی اصلاح کرنی چاہئے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ حلف نامے کو اس کی اصل شکل میں بحال کریں گے جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔زاہد حامد کے مطابق قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس کے دوران ترمیمی بل پیش کریں گے اور پرانے حلف نامے کو دوبارہ کاغذات نامزدگی کا حصہ بنائیں گے۔وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے کہاکہ متفقہ طور پر ایک ترمیم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے، تمام سیاسی جماعتوں کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اتفاق کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیکلریشن رول، سیاسی جماعتوں، ختم نبوت، بانی پاکستان کے وژن کے حوالے سے لفظ بہ لفظ، جو ایکٹ پاس کیا ہے، اس میں سابقہ ایکٹ والے الفاظ دوبارہ شامل کئے جائیں گے اور اس قانون کو پہلے والی صورت میں بحال کر دیں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اس طرح کلاز 7 سی اور 7 بی جو مارشل لاءکے دور میں رہی تھیں، اس پر بھی اعتراض آیا ہے، اس کو بھی دوبارہ بحال کر دیا جائے گاتحریک انصاف کے رہنماشاہ محمود قریشی نے کہا کہ الیکشن بل میں ترمیم کرکے حلف نامے کو اصل حالت میں بحال کیا جائے گا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ بڑا حساس ¾ جذباتی اور اہم مسئلہ ہے۔کاغذات نامزدگی کو اصل شکل پر لانے کا فیصلہ ہوا ہے ،اتفاق کیا ہے کہ بدھ کو انتخابی اصلاحات بل میں ایک ترمیم کی جائے گی، میں نے تجویز دی ہے کہ شق 203 پر بھی نظرثانی کی جائے بدھ کو معمول کی کارروائی معطل کر کے ترمیم پیش کی جائے گی۔رہنما پیپلزپارٹی نوید قمر نے کہا کہ حکومت نے اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے، تمام پارلیمانی جماعتوں نے معاملہ حل ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس موقع پر پارلیمانی لیڈر جمعیت علمائے اسلام (ف) و وفاقی وزیر اکرم خان درانی نے کہا کہ گزشتہ دو دنوں سے ملک میں بے چینی پائی جا رہی تھی، یہ بڑا حساس مسئلہ تھا، میں نے گزشتہ روز ایوان میں ڈپٹی سپیکر کے سامنے بات کی کہ یہ معاملہ بڑا پیچیدہ ہے، اس پر تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز سے بات کی جائے اور اس حوالے سے تاخیر نہ کی جائے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ آج اچھے انداز سے اس مسئلہ کا حل نکالا گیا، کلاز سیون سی اور بی بڑا حساس مسئلہ ہے۔ اکرم خان درانی نے کہا کہ جے یو آئی (ف) نے عوام میں تشویش کے حوالے سے آج میڈیا کو دعوت دی تھی، تمام جماعتوں اور حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ مسئلہ کی حساسیت و نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس کا حل نکالا گیا۔ میڈیا جس طرح حرف بہ حرف اس مسئلہ کو سامنے لایا ہے، اسی انداز میں ایوان میں بھی اسے پاس کیا جائے گا، اس سے بڑے نقصان کا خدشہ تھا اس لئے ہم نے سپیکر کے سامنے بات رکھی۔ انہوں نے کہا کہ اس غلطی کی انکوائری کی جائے گی، جس انداز میں اس کو لایا گیا ہے، غلطی کرنے والے ذمہ داروں کیخلاف ایکشن ہوگا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی شیخ صلاح الدین نے کہا کہ اس بل کے حوالے سے بڑا ایشو سامنے آیا، سپیکر قومی اسمبلی نے تمام پارلیمانی پارٹیوں کو بلا کر متفقہ طور پر فارم نامزدگی کے حوالے سے فیصلہ کیا ہے کہ اس کو دوبارہ اسی شکل میں بحال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے میڈیا نے بہت اچھا کردار ادا کیا۔ آج میڈیا اس بات پر یقین کرے کہ اس کو دوبارہ پہلے والی شکل میں بحال کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی کے قومی اسمبلی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ یعقوب خان نے کہا کہ میڈیا کے شکر گذار ہیں کہ اس پیچیدہ معاملہ کو سامنے لایا گیا۔ بل پاس کرتے وقت جماعت اسلامی نے پانچ ترامیم لائی تھیں، ان پر غور نہیں کیا گیا، ان کے مطابق پرانا فارم نامزدگی بحال ہو جاتا، اس طرح کلاس سیون سی اور بی بھی بحال ہو جاتیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک حساس نوعیت کے معاملے کو حکومت اور اپوزیشن نے حل کرلیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ تمام پارلیمانی رہنماﺅں نے پرانے فارم کو بحال کرنے کے بارے میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے، انتخابی اصلاحات کے بل کے موقع پر ہماری ترمیم ہلڑ بازی کی وجہ سے نہ ہو سکی، میں تمام جماعتوں کا مشکور ہوں جنہوں نے اس معاملہ پر اتفاق کیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ حساس اور جذباتی مسئلہ ہے پورے ملک میں ہلچل سی مچ گئی ہے، اپوزیشن نے اس مسئلے کی نشاندہی کی اور اسے اسمبلی میں اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ آج اتفاق ہوا ہے کہ ارکان کے کاغذات نامزدگی میں حلف نامہ کے فارم کو اصل شکل میں بحال کیا جائے گا۔سب نے اتفاق کیا ہے کہ آج الیکشن ایکٹ2017میں ترمیم کی جائے گی۔اور اسے پرانی شکل میں بحال کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پارلیمانی لیڈر سے درخواست کی کہ جہاں بہتری کے لیے اصلاح کررہے ہیں وہاں شق2003کے کلاز پر بھی نظرثانی کی جائے وہ بھی متنازعہ ہے وکلاہ ہڑتال پر ہیں۔سب نے کہا ہے کہ 203کلاز آئین سے متصادم ہے یہ عدالتوں میں چیلنج ہوجائے گی، مگر حکومت نے بات نہیں سنی پورے اچھے قانون کو 203نے متنازع بنا دیا۔ شاہ محمو د نے کہا کہ وکلاءنے ہڑتال کی کال دی ہے اپوزیشن مکمل طور پر شق 203کے خلاف آواز اٹھارہی ہے کہ اس پر بھی نظر ثانی کرلیں،انہوں نے کہا کہ کیا ن لیگ کے پاس کوئی ایسی شخصیت نہیں جس کو پارٹی کا صدر بنا سکے،نئے پارٹی صدر کے طورپر شہباز شریف کا نام تجویز کیا گیا کیا آپ ان پر اعتماد نہیں کرسکتے وہ آپ کے اپنے نہیں ہیں۔