تازہ تر ین

عمران خان ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہیں اور مراعات کبھی نہیں بڑھنے دینگے ، وزیراعظم ہر ہفتے لاہور آتے اور کابینہ اجلاس کی صدارت بھی کرتے ہیں لگتا ہے انہیں تنخواہوں کے بل سے لاعلم رکھا گیا

رپورٹ امتنان شا ہد

پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں میں اضافے کے بل کے حوالے سے ایشو اس وقت کھڑا ہوا جب وزیراعظم پاکستان نے اس پر ٹویٹ کیا کہ انہیں بہت مایوسی ہوئی ہے کہ ممبران اسمبلی کی تنخواہیں ایسے وقت اور حالات میں بڑھی ہیں جب پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہے اور اپنے دوست ممالک کی سپورٹ سے ملک کی معیشت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو بل کے حوالے سے پنجاب اسمبلی اور پنجاب کے کرتا دھرتا لوگوں کی جانب سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ بل ایک دن میں آیا اور اسی دن پاس ہوگئی۔ میرے پاس جو اعداد و شمار ہیں وہ بڑے مضحکہ خیز ہیں وزیراعظم پاکستان جو ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں انکی تنخواہ 2لاکھ روپے ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب کی تنخواہ نئے پاس ہونے والے بل کے مطابق3لاکھ 75ہزار روپے تنخواہ ہوگی۔ اسکے علاوہ ایم پی اے حضرات کا علاج تا حیات سرکاری ہسپتالوں میں مفت ہوگا۔ 2002ءسے لیکر اب تک جتنے بھی وزیراعلیٰ بنے ہیں، یعنی 2002ءسے اب تک ہمارے 3وزراءاعلیٰ رہے، دوست محمد کھوسہ چونکہ عارضی طور پر تھے اور انکی وزارت اعلیٰ کی مدت 6ماہ سے کم تھی، دیگر وزراءاعلیٰ جن میں چوہدری پرویز الہیٰ، شہباز شریف اور موجودہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار شامل ہیں، انکو انکی مدت ختم ہونے پر لاہور شہر کے اندر ایک مناسب رقبہ پر مشتمل گھر دیا جائے گا اور انکی سکیورٹی بھی الگ سے ہوگی۔ ایسے حالات میں جب کہ ایک طرف ہم جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں، ہم نے اپنے اخبار خبریںکے اندر اور رات کو جب یہ سٹوری میڈیا پر بہت زیادہ آئی تو ہم نے بھی اسکو اپنے سوشل میڈیا چینل پر چلایا۔ اس وقت سے لیکر اب تک اتنا دباﺅ پڑا کہ وہ وزیر جو پہلے کہہ رہے تھے کہ بہت اچھا ہوا ہے ،ایم پی اے کی تنخواہ بہت کم تھی، 17سکیل کے ملازم کی تنخواہ کے برابر تھی جب وزیراعظم کا ٹویٹ آیا تو ایک دم سے انہوں نے یو ٹرن لیا اور کہا کہ ہمیں اس پر دوبارہ سوچنا پڑے گا۔ کیونکہ یہ بل اسمبلی سے پاس ہوتا ہے اور اسکے بعد بل کا مسودہ گورنر پنجاب کے پاس جاتا ہے اور اسکی منظوری گورنر دیتے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق وزیراعظم صاحب نے ٹویٹ تو کر دیا لیکن اسکے بعد حکومت پر اور خاص طور پر وزیراعظم پاکستان پر بہت دباﺅ آیا کیونکہ ایک طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم ہاﺅس،گورنر ہاﺅس کو بیچا جائے اور دیگر پرائم اداروں کی بلڈنگز یعنی ریڈیو پاکستان، ریسٹ ہاﺅسز کو پرائیویٹائزکیا جائے تاکہ پاکستان کی معیشت اور قومی خزانے میں پیسوں کا انضمام کیا جائے۔ دوسری طرف وہی پیسے اگر ہم نے اٹھا کر ارکان اسمبلی، خاص طور پر پنجاب کی اسمبلی جو کہ پاکستان کی تمام اسمبلیوں سے بڑی اسمبلی ہے، انکو دینے ہیں تو کم از کم میری معلومات کے مطابق 93کروڑ روپے سالانہ قومی خزانے پر مزید بوجھ پڑے گا۔ وزیراعظم آفس کی پنجاب اسمبلی میں ممبران کی تنخواہوں میں اضافے کا بل پیش ہونے تک لاعلمی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور غالباًاسی مسئلے پر وزیراعظم پاکستان کو پتا لگا تو انہوںنے ٹویٹ کیا۔ میری معلومات یہی ہیں کہ ایک دن میں یہ بلز پاس کرنے کا پرائیویٹ ممبرز ڈے تھا ۔ اسی دن بل آنا اور منظور ہوجانا اور تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کا اس پر بیک آواز اور ایک پیج پر ہونا بڑی خدشے کی بات ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو پنجاب کے معاملات اور ڈویلپمنٹ کی مکمل معلومات نہیں ہیں، وہ آتے ضرور ہیں۔ جس طرح سے گذشتہ دور حکومت میں کے پی کے میں انکی حکومت رہی اسی حساب سے وہ آجکل لاہور بھی بہت زیادہ آتے ہیں اور غالباًہر دوسرے، تیسرے ہفتے وہ کابینہ کی میٹنگ بھی چیئر کرتے ہیں۔ اس سے صرف ایک چیز سمجھ میں آتی ہے کہ وزیراعظم پاکستان کو مکمل طور پر معلومات حاصل نہیں ہیں کہ پنجاب میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ وہ جب آتے ہیںتو انہیں ڈویلپمنٹ کا تو بتایا جاتا ہے لیکن مجھے شک ہے کہ اس بل کے بارے میں غالباً وزیراعظم کو لاعلم رکھا گیا۔ میری معلومات اس حوالے سے یہ ہیں کہ وزیراعظم پاکستان نے گورنر پنجاب کو ٹیلی فون کیا ہے اور ان سے مشاورت بھی کی ہے۔ اس بل کو پاس ہونے اور گورنر کے دستخط ہونے سے پہلے دوبارہ دیکھا جائے گا۔ شاید ممبران اسمبلی کی تنخواہوں میں بل کے مطابق اضافہ نہ ہو، ہو سکتا ہے تنخواہوں میں اضافہ کی سطح کم کرکے تنخواہیں بڑھائی جائیں اور ہو سکتا ہے اضافہ فوری طور پر نہ ہو۔ یہ کہنا غیر مناسب ہوگا کہ وزیراعلیٰ پنجاب لاعلم تھے کہ انکی پارٹی بل لارہی ہے اور کسی پرائیویٹ ممبر نے یہ بل پاس کیا اور چلا گیا۔ یہ معاملہ وزیراعلیٰ اور انکے مشیران اور باقی لوگوں کے علم میں یقیناً ہوگا۔ میری وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر اور عمران خان کے قریبی ساتھی عون چوہدری سے بات ہوئی انہوں نے کہاکہ میں اپنی پوری تنخواہ شوکت خانم کو دینا چاہتا ہوں نہ تو میں پہلے تنخواہ لیتا تھا نہ اب میں یہ تنخواہ نہیں لوں گا۔ عون چوہدری نے واضح کیا کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں کا معاملہ وزیراعلیٰ کے علم میں تھا اور وزیراعلیٰ ہاﺅس میں اس پر بات بھی ہوئی تھی مگر تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے عمران خان کو معاملہ سے لاعلم رکھا۔اپوزیشن اور پنجاب اسمبلی کے ممبران اس بل پر بہت خوش ہیں چاہے انکا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور آزاد اراکین بھی اس بل پر بہت خوش ہیں۔ لیکن اگر گورنر اس بل پردستخط کر دیتے ہیں ایسے وقت میں جب پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس وقت میں بل پاس ہونا اور وزیراعظم کے وہ تمام اعلانات جن میں وہ سادگی کا پرچار کرتے رہے ہیں۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ وزیراعظم عمران خان پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہیں، انکے ایک ایگزیکٹو آرڈر سے یہ تمام چیزیں رک سکتی ہیں۔ مگر وہ صرف اپنے ٹویٹ میں کہہ رہے ہیں کہ مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ جناب وزیراعظم آپکو مایوسی نہیں ہونی چاہیے بلکہ آپکو اسکے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ میرا خیال تھاکہ جب عمران خان کے علم میں یہ بات آئے گی تو وہ اسکو روکنے کے لیے گورنر سے بات کرنے کی بات کہیں گے۔ تاہم میری معلومات کے مطابق گورنر کے پاس بل جانے سے پہلے بل کو دوبارہ دیکھا جارہا ہے کہ کیا موجودہ حالات میں اس بل پر دستخط کیے جائیں، پاس کیا جائے یا نہیں۔ عمران خان بیک وقت وزیراعظم بھی ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب بھی ہیں اور ہر وزیر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے پنجاب کابینہ کا اجلاس اپنی سربراہی میں بلاتے ہیں۔ ہمارے وزیراعلیٰ بڑے شریف آدمی ہوں گے، بہت اچھے، بڑے پسماندہ علاقے سے آئے ہوں گے لیکن انکے ہاتھ سے کچھ نہیں ہورہا۔ دراصل بیوروکریسی کام کرتی نظر آرہی ہے جس کی نگرانی کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان خود بیوروکریسی کی مدد سے صوبہ چلا رہے ہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بالکل مضبوط حکومت نہیں ہے۔ صرف10یا 12ووٹوں کا فرق ہے جو اتحادیوں کے جھکاﺅکیوجہ سے کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے اتحادیوں کی وزیراعلیٰ پنجاب کیساتھ اس حد تک مخالفت تھی کہ گذشتہ روز مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور اس سے قبل بھی ایک ویڈیو لیک ہوچکی ہے جسمیں چوہدری پرویز الہیٰ اور طارق بشیر چیمہ شکایت کر رہے تھے کہ گورنر اور وزیراعلیٰ انکی مرضی نہیں چلنے دے رہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور انکے چند مشیران کس حد تک صوبہ پنجاب چلا رہے ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق صوبہ پنجاب وزیراعظم اور وزیراعظم ہاﺅس سے چلایا جارہا ہے عثمان بزدار بہت اچھے آدمی ہیں ، مگر صوبے کا کنٹرول انکے ہاتھ میں نہیں ہے۔ عثمان بزدار کی وزیراعلیٰ کے لیے نامزدگی کے وقت بھی تحریک انصاف میں پہلے سے موجود سینئر ممبران کے تحفظات تھے کہ انکو وزارت اعلیٰ نہ دی جائے۔ جب وزیراعلیٰ پنجاب کی نامزدگی ہورہی تھی تو وزیراعظم پاکستان نے مختلف لوگوں سے 3ملاقاتیں کیں۔ جن میں سب سے پہلی ملاقات بنی گالا میں ڈاکٹر یاسمین راشد سے ہوئی، جو موجودہ وزیرصحت پنجاب ہیں، انکا نام بھی وزیراعلیٰ کےلئے آرہا تھا۔ اسی طرح چکوال سے ممبر پنجاب اسمبلی راجہ یاسرکا نام بھی تھا۔ وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک انصاف میں ایک لابی ضرور موجود ہے جو انہیں مضبوط وزیراعلیٰ نہیں دیکھنا چاہتی۔ پنجاب کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب میں تگڑے وزیراعلیٰ کی ضرورت ہے کیونکہ لوگ اسکا مقابلہ شہباز شریف کی مینجمنٹ اور انکی شخصیت سے کرتے ہیں۔ پنجاب کو بہت ضرورت ہے کہ یہاں کوئی بارعب اور تگڑا وزیراعلیٰ ہو، لوگ جسکی بات مانیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv