تازہ تر ین

فضل الرحمن کے کارنامے بے نقاب ہر دور حکومت میں وارے نیارے ”خبریں“ کے حسنین اخلاق کی چونکا دینے والی رپورٹ

لاہور(رپورٹ:حسنین اخلاق)ایم ایم اے ختم ہونے کے بعد اپوزیشن اتحاد کو جمع کرنے میں مشغول مولانا فضل الرحمن کیااسلامی ،نظریاتی یا ذاتی مفادات کی سیاست میں مصروف ہیں؟۔پی پی پی اور ن لیگ کے رہنماءبھی جے یو آئی سربراہ کی مفاداتی سیاست سےائف ہونے لگے۔ان رہنماﺅں کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن جو کہ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماءاسلام (ف) گروپ کے مرکزی امیر اور صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت، پی پی پی کے بھی اتحادی رہے جبکہ ان حکومتوں میں بطور رکن قومی اسمبلی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔2018 کے الیکشن میں مولانا کو شکست ہوئی اور وہ سخت تنقید کر رہے ہیں جس کے بعد وہ قومی اداروں پر سخت تنقید میں مصروف ہوچکے ہیں۔چیرمین شپ کے مزے ختم ہوئے تو مولانا فضل الرحمان سے سرکاری رہائش گاہ چھن گئی، مولانا نے تیرہ سال بعد منسٹراینکلیو کا بنگلا نمبر بائیس خالی کر کے بوریا بستر سمیٹا،اور اب تبدیلی نے مولانا فضل الرحمان کی سیٹ ہی نہیں چھینی انھیں بے گھر بھی کردیا سرکاری آشیانہ چھن گیا۔مولانا اسی پاکستان کی قومی اسمبلی میں کئی برس رکن رہے، ان کے بزرگوں نے جس کی مخالفت کی تھی۔ اسی پاکستان سے انواع و اقسام کی مراعات حاصل کیں۔ کشمیر کمیٹی کے صدر رہے۔ جبکہ مولانا کے قریبی عزیزوںنے کس طرح اس ریاست پاکستان سے بھرپور فوائد اٹھائے، موجودہ اسمبلی میںفضل الرحمن صاحب نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے لیے اپنے ہی صاحبزادے اسد محمود کو نامزد کر دیا تو حیرت کیسی؟متحدہ مجلس عمل کا دور اقتدار توسب کو یاد ہی ہو گا جب یہ سب اکابرین کے پی کے میں نفاذ اسلام کی جدوجہد میں مصروف تھے۔مولانا کے چھوٹے بھائی ضیاءالرحمن متحدہ مجلس عمل کے دور اقتدارکے دنوں پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔مارچ 2005ءمیں اچانک وزیر اعلیٰ کے حکم پر انہیں افغان ریفیوجیز کمیشن میں پراجیکٹ ڈائریکٹر لگا دیا گیا۔یہ سب اتنی عجلت میں کیا گیا کہ پہلے سے موجود پراجیکٹ ڈائریکٹر فیاض درانی کو ان کے منصب سے الگ کیے بغیر مولانا کے بھائی کو یہاں تعینات کر دیا گیا۔۔مذکورہ افسر پوچھتا ہی رہ گیا کہ جو سیٹ خالی ہی نہیں اس پر کسی کو کیسے تعینات کر دیا گیا۔دو سال بعدانہیں شاید یہ محکمہ کچھ زیادہ ہی پسند آگیا۔چنانچہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی نے ایک خصوصی سمری تیار کی ،اکتوبر 2007 ءمیںگورنر علی محمد جان اورکزئی نے اس سمری کو منظور کر لیا اور یوں ایک اسسٹنٹ انجینئر کو سپیشل کیس کے طور پر صوبائی سول سروس کا حصہ بنا دیا گیا اور انہیں اسی افغان ریفیوجیز کمیشن میں ایڈیشنل کمشنر لگا دیا گیا۔2013ءمیں مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو جے یو آئی اس حکومت کا حصہ بن گئی۔درانی صاحب نے وزیر کا حلف اٹھا لیا۔ 25 فروری 2014ءکو ایک نیا نوٹیفیکیشن جاری ہوا اور انکی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کے سپرد کر دی گئیں۔اور انہیں ڈی سی او خوشاب بنا دیا گیا۔ ایک اسسٹنٹ انجینئر مقابلے کا امتحان دیے بغیر سول سروس کا حصہ بھی بن گیا اور ڈی سی او بھی لگ گیا۔اپریل 2016ءمیں ان کی خدمات سیفران کے حوالے کر دی گئیں اور سیفران نے انہیں کمشنر افغان ریفیوجیز کے عہدے پر تعینات کر دیا۔ یہ گریڈ 20 کی پوسٹ تھی جو مولانا کے بھائی کی خدمت میں پیش کر دی گئی جبکہ اس سیٹ پرپہلے سے تعینات افسر محمد عباس نے سی ایس ایس کر رکھا تھاجس نے اٹلی سے ریفیوجی لاءکورس کر رکھا ہے ، آ کسفورڈ یونیورسٹی سے ’ فورسڈ مائیگریشن‘ کا سمر سکول اٹینڈ کیا ہوا ہے۔ان کے بھائی مولانا عطاءالرحمن پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر بنا دیے گئے۔2008ءسے 2010ءتک وہ وزیر سیاحت رہے۔1988میں انہیں مولانا سمیع الحق کی مخالفت کے باوجود مرکزی الیکشن کمیشن تعینات کرکے پارٹی انتخاب کروائے گئے۔وہ جے یو آئی کے پی کے ، کے جوائنٹ سیکرٹری بھی رہے۔ 2002ئٓ میں یہ پارٹی کے ڈپٹی الیکشن کمشنر بنے ، اس کے بعد انہیں کے پی کے جماعت کا نائب امیر بھی بنا دیا گیا۔2003 ءاور 2008ءمیں علمائے اسلام کی جمعیت میں کوئی اس قابل نظر نہ آ یا چنانچہ اس بھاری ذمہ داری کے لیے ایک بار پھر انہی کو چنا گیا۔2013ءکے انتخابات میں مولانا فضل الرحمن نے ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ضمنی الیکشن کا مرحلہ آیا تو ایک بار پھر نظر انتخاب اپنے ہی بھائی پر پڑی اور انہیں لکی مروت این اے 27 سے ٹکٹ دیا گیایہ الگ بات کہ وہ ہار گئے۔سینیٹ کے انتخابات کا مر حلہ آیا تو مولانا نے ان کو ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں تک لا پہنچایا اور سینیٹر بنوا دیا۔ اس وقت مولانا عطا الرحمن سینیٹر ہیں۔انکے ایک اوربھائی مولانا لطف الرحمن ہیں۔کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو قائد حزب اختلاف کے لیے بھی علمائے اسلام کی جمعیت میں مولانا فضل الرحمن کے بھائی جان کے علاوہ کوئی بندہ نہ ملا چنانچہ مولانا لطف الرحمن اپوزیشن لیڈر قرار پائے۔ایک اور مثال حاجی غلام علی صاحب کی ہے جو مولانا کے سمدھی ہیں اور سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے اپنے صاحبزادے کو ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لیے نامزد کرنے پر مجلس عمل میں تناﺅ ہے اور سراج الحق سمیت کچھ رہنما اس سے خفا ہیں۔ اس لئے جہاں ایم ایم اے میں شامل قائدین جے یوآئی سربراہ سے اپنے خاندان کو نوازنے کے حوالے سے ناراض ہوکر مذہبی جماعتوں کے اتحاد سے الگ ہورہے ہیں وہیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنماءبھی کسی ایسے اتحاد کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہیں جس میں مولانا فضل الرحمن کو اہم ذمہ داری دی جائے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv