تازہ تر ین

این آر او کی باتیں مایوس سیاستدان کرتے ہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) کہنہ مشق صحافی‘ معروف تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ این آر او کے سلسلے میں اپوزیشن خاص طور پر وہ لوگ جن کے قریبی عزیز رشتے دار یا جن کے بہت خاص الخاص لیڈر قانون کے شکنجے میں ہیں وہی باتیں کررہے ہیں۔ فوج نے کبھی دانستہ یا نادانستہ اس موضوع کو کبھی چھیڑا ہی نہیں اور آن ریکارڈ ہے کہ پاک فوج کے کسی ترجمان نے پاکستانی فوج کے سربراہ اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ این آر او وہی کرسکتے ہیں جو قانون سے ماورا ہوں اور وہ تو صرف فوج ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس نے بھی کبھی این آر او کی بات نہیں کی اور عدالتوں میں سپئر کورٹس میں کبھی اس کی بات وہی مایوس سیاستدان کرتے ہیں جب ان سے کوئی چارہ کار بن نہیں پڑتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بڑا مشکل ہے این آر او ایک مرتبہ ہوا تھا اور اس این آر او کے تحت جنرل پرویزمشرف نے ایک خاص پیریڈ میں یعنی خاص فلاں تاریخ اور فلاں سن اور مہینہ تک تمام لوگوں کی سزائیں معاف کردی تھیں اور اس میں سیاستدانوں کے علاوہ غیر سیاسی لوگ بھی تھے۔ اس میں بیوروکریسی کے لوگ بھی تھے عام مجرمان بھی تھے۔ چنانچہ اس زمانے میں مسلم لیگ ن کے علاوہ سب سے زیادہ تعداد ایم کیو ایم کے لوگوں کی تھی اور اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے لوگ بھی شامل تھے لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اب کوئی حالات نہیں رہے پھر سپریم کورٹ نے ایک کیس سنا تھا جس کے بارے این آر او بارے میں قرار دے دیا گیا تھا یہ بالکل غیر اصولی تھا اور خود پرویزمشرف نے بھی بار بار اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی لہٰذا جس پر خود کرنے والا یہ کہہ چکا ہو میں نے غلط کیا تھا وہ کس طرح سے ہوسکتا ہے کہ دوبارہ اس ملک میں ہوسکے گا۔ جو لوگوں کے دیکھتے دیکھتے سورج کی روشنی میں وہ کام پھر ہوجائے میں سمجھتا ہوں کہ نہ آج کل وہ حالات ہیں نہ اس قسم کا کوئی امریکن پریشر ہے۔ اس وقت بھی امریکہ کے دباﺅ پر ہوا تھا امریکہ نے خود اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ چنانچہ اس وقت امریکہ کی وزیر خارجہ کونڈا ایزارائس نے ایک کتاب لکھی اور اس میں اس کا تفصیل سے تذکرہ کیا کہ کس طرح سے بینظیر بھٹو سے انہوں نے علیحدہ بات کی ،پرویز مشرف سے علیحدہ بات کی ، چنانچہ لوگوں کی نظر میں ، سب لوگوں کے سامنے تھا، پھر یہ جو واقعہ سعودی عرب اور نواز شریف صاحب کا پیش آیا تھا وہ بھی سب کے سامنے واقعہ ہواتھا ان کے سارے خاندان کے لوگوں کے لئے ایک جہاز آیا اور اس میں بیٹھ کر وہ چلے گئے، اس وقت شیخ رشید نے پارٹی چھوڑی تھی جب اس نے کہا تھا کہ ہم سے انہوں نے مشورہ ہی نہیں کیا اور ہم ان کی پارٹی میں تھے اور لوگوں مختلف سزائیں بھگت رہے تھے اور نوازشریف صاحب ان سے معاہدہ کرکے باہر چلے گئے، میں خود تسلیم کرتا ہوں کہ کوئی این آر او نہیں ہونے والا، نہ کوئی این آر او کرنے جارہاہے، اور نہ ہی آج کی فوج یا آج کی اعلیٰ عدالتی یا حکمران پارٹی یہی تین فریق ہوسکتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ چیئرمین نیب درست کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے ہمیشہ یہ کہا کہ میں بھی کوئی غلطی کروں تو آپ سامنے لائیں اور مجھے پکڑ لیں، اس لحاظ سے یہ کوئی بے عزتی کی بات نہیں ہے ، اگر کوئی ادارہ وزیراعظم سے کہتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب آپ فلاں بات کا جواب دیں تو ان کو دینے دیں جب عمران خان کو اعتراض نہیں ہے تو تیسرے بندے کو کوئی اعتراض کیوں ہوسکتا ہے ۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جس کا 26نکاتی ایجنڈا بتایاگیا تھا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیاشاہد نے کہا کہ 171ناموں کے ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے 20ناموں کا اس ازسر نوجائزہ لینے کے حوالے سے معاملے کو مو¿خر اس لئے کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا متن چونکہ سامنے نہیں آیا، حکومت نے فیصلہ ٹھیک کیا ہے، دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ ہم اس فیصلے پر سپریم کورٹ سے ہی رجوع کریں گے کہ اس پر نظرثانی کی جائے۔بھارتی آرمی چیف بپن راوت کے اعتراف جرم پر بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ ساری دنیا میں جاسوسی کی ممانعت ہے جو ملک خود مان لے کہ ہاں جی ہم جاسوسی کرتے ہیں اس طرح سے پھر جو بلوچستان میں (را) کا ایجنٹ پکڑاگیا تھا کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ پتہ کروارہے تھے وہ کیا کررہے ہیں، جاسوسی جرم ہے اگر آپ کسی دوسرے ملک کا جاسوس پکڑیں تو اس پر مقدمہ بنتا ہے جس طرح سے وہ فوجی عدالت میں اس پر مقدمہ چل رہاہے ، اسی میز پر میں اس پروگرام میں حافظ سعید سے کم از کم دو مرتبہ یہ کہہ چکا ہوں کہ ہم نے شملہ معاہدہ کے تحت 1971ءکی جنگ کے بعد جب ہماری فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑے معاہدہ شملہ میں بھٹو صاحب نے تسلیم کرلیا تھا کہ فوجیوں کی واپسی ، علاقے کی واپسی کا مسئلہ تھا، لہٰذا انہوں نے تسلیم کرلیا تھا کہ ہم بات چیت کرینگے لیکن بھارت تو مذاکرات کیلئے تیار ہی نہیں ہے، اب اتنے برس گزر گئے۔ زینب کیس ہر صاحب اولاد کو چیلنج کرتا ہے۔ زینب واقعہ کے بعد سپریم کورٹ میں پٹیشن کی کہ اب تک 48 مزید واقعات ہوچکے ہیں پھر ایک اور درخواست دی اور بتایا کہ بچوں سے درندگی کے 98 واقعات ہوچکے ہیں یہ درخواستیں دینے کا مقصد یہ تھا کہ بتایا جائے ایسے واقعات اور خوفناک رجحان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آج بھی ہر روز کوئی نہ کوئی خبر آتی ہے کہ فلاں علاقہ میں بچے یا بچی کے ساتھ درندگی کی گئی اور پھر قتل کردیا گیا۔ ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی دی جانی چاہئے پھر ہی ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے خرم زمان کے پاس آصف زرداری کیخلاف مزید مضبوط شواہد آئے ہیں تبھی انہوںنے اوپن کورٹ میں لیجانے کی بات کی ہے یہ یوٹرن نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے بجائے معاملے کے اوپن عدالت میں لیجانا تو زیادہ جرا¿ت مندانہ اقدام ہے۔اپوزیشن اعتراف کررہی ہے کہ حکومت فوجی عدالتوں کے لئے بنائی گئی کمیٹی سے خود فواد چودھری کا نام نکال دے تاکہ اپوزیشن کو مخالفت کیلئے کوئی بہانہ نہ مل سکے۔ اپوزیشن کو اس معاملہ کو صرف اور صرف میرٹ پر دیکھنا چاہئے۔ شرائط نہیں رکھنی چاہئیں نہ ہی بہانہ بازی کرنی چاہئے۔ سپریم کورٹ فیس کمی کے فیصلہ پر خود عملدرآمد کرائے اور صرف اظہار برہمی کے بجائے سزا سنائے پھر ہی فیصلہ پر عملدرآمد ہوسکتا ہے۔

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) کہنہ مشق صحافی‘ معروف تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ این آر او کے سلسلے میں اپوزیشن خاص طور پر وہ لوگ جن کے قریبی عزیز رشتے دار یا جن کے بہت خاص الخاص لیڈر قانون کے شکنجے میں ہیں وہی باتیں کررہے ہیں۔ فوج نے کبھی دانستہ یا نادانستہ اس موضوع کو کبھی چھیڑا ہی نہیں اور آن ریکارڈ ے کہ پاک فوج کے کسی ترجمان نے پاکستانی فوج کے سربراہ اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ این آر او وہی کرسکتے ہیں جو قانون سے ماورا ہوں اور وہ تو صرف فوج ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس نے بھی کبھی این آر او کی بات نہیں کی اور عدالتوں میں سپئر کورٹس میں کبھی اس کی بات وہی مایوس سیاستدان کرتے ہیں جب ان سے کوئی چارہ کار بن نہیں پڑتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بڑا مشکل ہے این آر او ایک مرتبہ ہوا تھا اور اس این آر او کے تحت جنرل پرویزمشرف نے ایک خاص پیریڈ میں یعنی خاص فلاں تاریخ اور فلاں سن اور مہینہ تک تمام لوگوں کی سزائیں معاف کردی تھیں اور اس میں سیاستدانوں کے علاوہ غیر سیاسی لوگ بھی تھے۔ اس میں بیوروکریسی کے لوگ بھی تھے عام مجرمان بھی تھے۔ چنانچہ اس زمانے میں مسلم لیگ ن کے علاوہ سب سے زیادہ تعداد ایم کیو ایم کے لوگوں کی تھی اور اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے لوگ بھی شامل تھے لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اب کوئی حالات نہیں رہے پھر سپریم کورٹ نے ایک کیس سنا تھا جس کے بارے این آر او بارے میں قرار دے دیا گیا تھا یہ بالکل غیر اصولی تھا اور خود پرویزمشرف نے بھی بار بار اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی لہٰذا جس پر خود کرنے والا یہ کہہ چکا ہو میں نے غلط کیا تھا وہ کس طرح سے ہوسکتا ہے کہ دوبارہ اس ملک میں ہوسکے گا۔ جو لوگوں کے دیکھتے دیکھتے سورج کی روشنی میں وہ کام پھر ہوجائے میں سمجھتا ہوں کہ نہ آج کل وہ حالات ہیں نہ اس قسم کا کوئی امریکن پریشر ہے۔ اس وقت بھی امریکہ کے دباﺅ پر ہوا تھا امریکہ نے خود اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ چنانچہ اس وقت امریکہ کی وزیر خارجہ کونڈا ایزارائس نے ایک کتاب لکھی اور اس میں اس کا تفصیل سے تذکرہ کیا کہ کس طرح سے بینظیر بھٹو سے انہوں نے علیحدہ بات کی ،پرویز مشرف سے علیحدہ بات کی ، چنانچہ لوگوں کی نظر میں ، سب لوگوں کے سامنے تھا، پھر یہ جو واقعہ سعودی عرب اور نواز شریف صاحب کا پیش آیا تھا وہ بھی سب کے سامنے واقعہ ہواتھا ان کے سارے خاندان کے لوگوں کے لئے ایک جہاز آیا اور اس میں بیٹھ کر وہ چلے گئے، اس وقت شیخ رشید نے پارٹی چھوڑی تھی جب اس نے کہا تھا کہ ہم سے انہوں نے مشورہ ہی نہیں کیا اور ہم ان کی پارٹی میں تھے اور لوگوں مختلف سزائیں بھگت رہے تھے اور نوازشریف صاحب ان سے معاہدہ کرکے باہر چلے گئے، میں خود تسلیم کرتا ہوں کہ کوئی این آر او نہیں ہونے والا، نہ کوئی این آر او کرنے جارہاہے، اور نہ ہی آج کی فوج یا آج کی اعلیٰ عدالتی یا حکمران پارٹی یہی تین فریق ہوسکتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ چیئرمین نیب درست کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے ہمیشہ یہ کہا کہ میں بھی کوئی غلطی کروں تو آپ سامنے لائیں اور مجھے پکڑ لیں، اس لحاظ سے یہ کوئی بے عزتی کی بات نہیں ہے ، اگر کوئی ادارہ وزیراعظم سے کہتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب آپ فلاں بات کا جواب دیں تو ان کو دینے دیں جب عمران خان کو اعتراض نہیں ہے تو تیسرے بندے کو کوئی اعتراض کیوں ہوسکتا ہے ۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جس کا 26نکاتی ایجنڈا بتایاگیا تھا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیاشاہد نے کہا کہ 171ناموں کے ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے 20ناموں کا اس ازسر نوجائزہ لینے کے حوالے سے معاملے کو مو¿خر اس لئے کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا متن چونکہ سامنے نہیں آیا، حکومت نے فیصلہ ٹھیک کیا ہے، دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ ہم اس فیصلے پر سپریم کورٹ سے ہی رجوع کریں گے کہ اس پر نظرثانی کی جائے۔بھارتی آرمی چیف بپن راوت کے اعتراف جرم پر بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ ساری دنیا میں جاسوسی کی ممانعت ہے جو ملک خود مان لے کہ ہاں جی ہم جاسوسی کرتے ہیں اس طرح سے پھر جو بلوچستان میں (را) کا ایجنٹ پکڑاگیا تھا کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ پتہ کروارہے تھے وہ کیا کررہے ہیں، جاسوسی جرم ہے اگر آپ کسی دوسرے ملک کا جاسوس پکڑیں تو اس پر مقدمہ بنتا ہے جس طرح سے وہ فوجی عدالت میں اس پر مقدمہ چل رہاہے ، اسی میز پر میں اس پروگرام میں حافظ سعید سے کم از کم دو مرتبہ یہ کہہ چکا ہوں کہ ہم نے شملہ معاہدہ کے تحت 1971ءکی جنگ کے بعد جب ہماری فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑے معاہدہ شملہ میں بھٹو صاحب نے تسلیم کرلیا تھا کہ فوجیوں کی واپسی ، علاقے کی واپسی کا مسئلہ تھا، لہٰذا انہوں نے تسلیم کرلیا تھا کہ ہم بات چیت کرینگے لیکن بھارت تو مذاکرات کیلئے تیار ہی نہیں ہے، اب اتنے برس گزر گئے۔ زینب کیس ہر صاحب اولاد کو چیلنج کرتا ہے۔ زینب واقعہ کے بعد سپریم کورٹ میں پٹیشن کی کہ اب تک 48 مزید واقعات ہوچکے ہیں پھر ایک اور درخواست دی اور بتایا کہ بچوں سے درندگی کے 98 واقعات ہوچکے ہیں یہ درخواستیں دینے کا مقصد یہ تھا کہ بتایا جائے ایسے واقعات اور خوفناک رجحان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آج بھی ہر روز کوئی نہ کوئی خبر آتی ہے کہ فلاں علاقہ میں بچے یا بچی کے ساتھ درندگی کی گئی اور پھر قتل کردیا گیا۔ ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی دی جانی چاہئے پھر ہی ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے خرم زمان کے پاس آصف زرداری کیخلاف مزید مضبوط شواہد آئے ہیں تبھی انہوںنے اوپن کورٹ میں لیجانے کی بات کی ہے یہ یوٹرن نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے بجائے معاملے کے اوپن عدالت میں لیجانا تو زیادہ جرا¿ت مندانہ اقدام ہے۔اپوزیشن اعتراف کررہی ہے کہ حکومت فوجی عدالتوں کے لئے بنائی گئی کمیٹی سے خود فواد چودھری کا نام نکال دے تاکہ اپوزیشن کو مخالفت کیلئے کوئی بہانہ نہ مل سکے۔ اپوزیشن کو اس معاملہ کو صرف اور صرف میرٹ پر دیکھنا چاہئے۔ شرائط نہیں رکھنی چاہئیں نہ ہی بہانہ بازی کرنی چاہئے۔ سپریم کورٹ فیس کمی کے فیصلہ پر خود عملدرآمد کرائے اور صرف اظہار برہمی کے بجائے سزا سنائے پھر ہی فیصلہ پر عملدرآمد ہوسکتا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv