تازہ تر ین

این آر او نہیں ملیگا ، فواد چودھری ڈٹ گئے

اسلام آباد، جہلم(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں قبرستان جیسی خاموشی اختیار کی تو ملک نہیں چلے گا اور عوام کی نمائندگی نہ کرنے والی پارلیمنٹ نہیں چل سکتی۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جہلم کے علاقے فتح پور میں کارکنوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو پینے کا پانی میسر نہیں اور حکمران میٹرو بناتے رہے، اسکول میں بچوں کے پاس بیٹھنے کے لیے کرسی نہ ہو اور میٹرو بنالیں تو یہ زیادتی ہے، ہرسال جہلم سے اربوں روپے قومی خزانے میں جاتے ہیں لیکن پچھلی حکومت میں چھوٹے علاقوں کو نظر انداز کیا گیا، لہذا ملک کو فلاحی ریاست بنانے کیلئے وسائل کی منصفانہ تقسیم کرنا ہوگی۔فواد چوہدری نے کہا ہے کہ بلوچستان میں 1500 ارب گئے لیکن کوئٹہ میں اسپتال نہیں، 10 سال میں اربوں روپے کہاں خرچ ہوئے اس کا حساب ہونا چاہیے، جب میں کہتا ہوں ڈاکوں کو نہیں چھوڑوں گا اور کرپشن کی طرف توجہ دلاں اور تو اپوزیشن واک آٹ کر جاتی ہے، کہتے ہیں کہ ظلم ہوگیا اور جمہوریت خطرے میں پڑگئی۔وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ میں پیسوں کا حساب مانگوں تو الزام لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دیا جارہا، ملک کے فیصلہ ساز لوگوں کو بتادیتا ہوں کہ اس طرح سے پارلیمنٹ چلائی تو ملک نہیں چلے گا، آپ پارلیمنٹ میں قبرستان جیسی خاموشی چاہتے ہیں کہ کوئی سوال نہ کرے اور گریبان نہ پکڑے، میں اربوں کھربوں لوٹنے والوں سے سوال کروں تو جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے، مجھے بتائیں عوام کی نمائندگی نہ کرنیوالی پارلیمنٹ اور جمہوریت کیسے چل سکتی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ جو جمہوریت عوام کے بارے میں نہیں سوچے گی وہ ملک میں نہیں چل سکتی،پارلیمنٹ میں کوئی کھربوں روپے کی کرپشن کا سوال کردے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے ، اپوزیشن چاہتی ہے خاموشی سے بڑے ایوانوں میں وقت گزرتا رہے ،چھوٹے علاقوں کا بجٹ بھی بڑے شہروں میں اورنج لائن جیسے منصوبوں پر لگا دیا گیا،پاکستان میں کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے سیاست شروع کی تو ان کے پاس سائیکل اور موٹر سائیکل تھی لیکن اب ان کے پاس لگژری گاڑیاں ہیں ایسے لوگوں کو حساب کتاب تو دینا پڑے گا ، ہم چوروں سے لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کا وعدہ پورا کرینگے۔ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان کے چھوٹے اضلاع وسائل سے محروم رہے ہیں، جو ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن ان کے پیسے ان ہی کے پاس دوبارہ نہیں پہنچتے۔انہوں نے کوئٹہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اسمبلی میں کہا کہ 15 سو ارب روپیہ بلوچستان گیا لیکن پھر بھی کوئٹہ میں بہتر ہسپتال موجود نہیں ہے، سابق حکمرانوں کے بچے لندن میں اسکول پڑھتے ہیں، بلوچستان میں کہیں بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو طیاروں کے ذریعے متاثرین کو کراچی منتقل کیا جاتا ہے۔جب ماضی کی حکومتوں سے اس بارے سوال کیا جاتا ہے تو وہ سر پکڑ کے بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں آگئی ہے۔ اپوزیشن کو کرپشن کا حساب کتاب تو دینا ہی پڑے گا ۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اگر آپ پارلیمنٹ اور بڑے ایوانوں میں یہ چاہتے ہیں کہ خاموشی سے وقت گزرتا رہے اور کوئی کسی سے کھربوں روپے کا سوال نہ کرے، کیونکہ اس سوال پر کہا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں آگئی ہے۔انہوں نے سوال کیا جو جمہوریت عام آدمی کی ہی نمائندگی نہیں کرے گی وہ نہیں چل سکتی۔انہوں نے کہا کہ چھوٹے علاقوں کا بجٹ بھی بڑے شہروں میں اورنج لائن جیسے منصوبوں پر لگا دیے گئے ہیں۔اپنے حریفوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن انہوں نے سیاست شروع کی تھی ان کے پاس سائیکل اور موٹر سائیکل تھی، لیکن اب ان کے پاس لگژری گاڑیاں ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ایسے افراد سے ان کی اس دولت کے بارے میں سوال کریں گے تو ملک میں جمہوریت خطرے میں آجائے گی۔اپنے وعدے کے دہراتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ ہم نے چوروں سے لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کا وعدہ کیا تھا، وہ پورا کرکے دکھائیں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی خواہش ہے کہ این آر او مل جائے لیکن عمران خان کبھی این آر او نہیں دیں گے، اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے کرپشن پر پردہ نہیں ڈال سکتے، اگریہ کہیں کہ حکومت کرپشن کیسز کی پیروی نہ کرے تو یہ ناممکن ہے،آصف زرداری سمیت دیگر کے جیل جانے سے کوئی اثر نہیں پڑے گا، پرویز الہی اور عثمان بزدار آمنے سامنے آئے تو ہم عثمان بزدار کے ساتھ ہوں گے، حکومت کے 100 دن پورے ہونے پر وزیراعظم 29 نومبر کو قوم کو اعتماد میں لیں گے، اچھی ٹیم ملنے تک افسران کی ٹرانسفرز پوسٹنگز ہوتی رہیں گی اور وزرا کو کارکردگی پر ہٹانا وزیراعظم کا استحقاق ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہر چیز کو کارپٹ کے نیچے ڈالنے کا کلچر بن گیا ہے، اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے کرپشن پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔انہوں نے اپوزیشن جماعت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نیب میں موجودہ حکومت نے ایک چپڑاسی تک نہیں لگایا، اگر یہ کہے کہ حکومت کرپشن کیسز کی پیروی نہ کرے تو یہ ناممکن ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جعلی اکا ﺅ نٹس کے بارے میں سپریم کورٹ کو حکومتی تحقیقات سے بھی آگاہ کریں گے، آصف زرداری کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ عوام میں کتنے غیر مقبول ہیں، آصف زرداری سمیت دیگر کے جیل جانے سے کوئی اثر نہیں پڑے گا۔پنجاب میں وزیراعلی اور حکومتی اتحادی جماعت(ق) لیگ میں دوریوں سے متعلق سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ پرویز الہی اور عثمان بزدار آمنے سامنے آئے تو ہم عثمان بزدار کے ساتھ ہوں گے۔وفاقی وزیر اطلاعات نے حالیہ دھرنوں سے متعلق کہا کہ دھرنے والوں سے معاہدہ حالات پر امن رکھنے کے لیے کیا، بات چیت کے دوران کچھ لو اور کچھ دو کرنا پڑتا ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے لیے پارلیمانی کمیٹی صرف بات چیت شروع کرنے کے لیے بنائی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے 100 دن پورے ہونے پر وزیراعظم 29 نومبر کو قوم کو اعتماد میں لیں گے، اچھی ٹیم ملنے تک افسران کی ٹرانسفرز پوسٹنگز ہوتی رہیں گی اور وزرا کو کارکردگی پر ہٹانا وزیراعظم کا استحقاق ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوںکو انگریزی پڑھانے والا استاد نہیں۔ حکمرانوں کے بچے لندن اور امریکہ میں پڑھ رہے ہیں۔ ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لئے وسائل کی منصفانہ تقسیم کرنا ہوگی۔ ہسپتالوں کی حالت زار پر افسوس ہوتا ہے یہاں لوگ کھانسی آنے پر لندن چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو پینے کا پانی میسر نہیں اور حکمران میٹرو بناتے رہے۔ جہلم میں ہزاروں سال پرانی تاریخ کے امین لوگ ہیںحکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان علاقوں کی ترقی کے لئے اقدامات کرے ہر سال جہلم سے اربوں روپے قومی خزانے میں جاتے ہیں۔ پندرہ سو ارب روپے بلوچستان گئے مگر کوئٹہ میں ہسپتال نہیں۔ پچھلے دس سالوں میں خرچ ہونے والے کھربوں روپے کہاں گئے۔ عوام کی نمائندگی نہ کرنے والی پارلیمنٹ کیسے چل سکتی ہے۔ ایسا نظام بنائیں گے کہ سرکاری پیسہ عام آدمی کی مرضی سے استعمال ہوسکے۔ یہ صرف بلدیاتی نظام سے ہی ممکن ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ عوام کے پاس پینے کا پانی نہیں روز گار نہیں بجلی نہیں سائیکل پر سفر کرنے والے آج بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔ جہلم اور چکوال کے لوگ پاکستان کی سرحدوں پر پہرہ دیتے یں۔ عمران خان طاقتور بلدیاتی نظام کی بات کرتے ہیں۔ عام آدمی کی نمائندگی نہ کرنے والی جمہوریت کیسے چلے گی؟ سعد رفیق نے موٹر سائیکل سے سیاست کا آغاز کیا۔ سعد رفیق کے پاس آج دس دس گاڑیاںہیں۔ سعد رفیق وغیرہ سے پوچھیں جب سیاست میں آئے تو ان کے پاس کیا تھا۔ تحریک انصاف نے جو وعدے کئے وہ پورے ہوں گے۔ پہلا وعدہ چوروں کے احتساب کا کیا تھا جو پورا کرکے دکھائیںگے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv