تازہ تر ین

چیف جسٹس محکمہ اینٹی کرپشن کو با اختیار بنانے پر مبارکباد کے مستحق ہیں : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان کی بات میری سمجھ میں آئی نہیں کیونکہ عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ لیڈر کو اپنی بات پر ڈٹے رہنا چاہئے اور جو بات وہ ایک دفعہ کہہ دے وہی حرف آخر ہونی چاہئے۔ اب انہوں نے جو گنجائش کھول دی ہے تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ نوازشریف بھی پرسوں زبردست یو ٹرن لے رہے ہیں۔ کل انہوں نے کہا کہ میرا کوئی تعلق العزیزیہ سے نہیں، میرا اپنا تعلق بیٹوں کے بیانات سے نہیں ہے۔ آج انہوں نے کہہ دیا کہ میرے بیٹوں نے جو بھی اپنے کارخانے بنانے کے لئے تفصیل بیان کی ہے میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ اس طرح تو ہر شخص یہ کہہ کر بچ جائے گا کہ بڑا لیڈر تو یو ٹرن لیتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ضرور کچھ غلطی ہو گی۔ کوئی غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ میں تو سمجھتا ہو ںکہ عمران خان صاحب اپنی بات کے پکے آدمی ہیں اور جو کچھ بھی وہ کہتے ہیں عام طور پر وہ اس پر ڈٹے رہتے ہیں ہو سکتا ہے وہ کسی وقت وہ خود ہی وضاحت کر دیں۔ اس حد تک تو صحیح ہے کہ اگر چلتے ہوئے دیوار سامنے آ جائے تو دائیں بائیں جس طرف بھی راستہ ہو اس طرف کا رخ کرنا چاہئے لیکن اس کا یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ آپ کو اپنی بات سے پھر جانا چاہئے اور اس کی جگہ ایک بالکل متبادل جو تجویز ہو وہ دے دینی چاہئے۔ میرا خیال ہے کہ کل صبح کے اخبارات میں جب ان کی یہ باتیں چھپیں گی تو پھر وہ اس کی وضاحت بھی کریں گے۔
پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی سربراہی کے حوالے سے ڈیڈ لاک پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ عمران خان کی بات میں وزن تو ہے وہ اس لئے کہ جتنے الزامات شہباز شریف پر لگ رہے ہیں کوئی عدالت یا تو ان کو سارے الزامات سے بری قرار دیدے۔ فی الحال تو ان پر الزامات عائد ہو رہے ہیں لہٰذا ایسے حالات میں کہ ایک شخص پر ایک درجن سے زیادہ تو معاملات چل رہے ہوں اس میں کرپشن بھی اس میں بدنظمی، بے قاعدگیاں بھی ہوں، اقربا پروری بھی ہو اور اس کے اس کو اٹھا کر پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیں تو میرا خیال ہے کہ یہ تو واقعی ایک مذاق کی بات ہو گی۔ تاہم دیکھنا ہو گا کہ خود قومی اسمبلی میں کیا رویہ اختیار کرتی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ماضی میں یہ روایت رہی ہے کہ جو لیڈر آف دی اپوزیشن ہوتا ہے وہی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا چیئرمین ہوتا ہے لیکن اس قسم کے لیڈر آف اپوزیشن بھی نہیں رہے کہ جن پر 12,12 مقدمات چل رہے ہوں دیکھتے ہیں کہ اس کا کیا حل نکلتا ہے۔
نیب پر مقدمات کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ عمران خان کے اس بیان پر کہ نیب قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ نیب میں ترمیم کی بات تو سبھی کر رہے ہیں۔ رضا ربانی صاحب نے بھی کی نوازشریف نے بھی کی، رانا ثناءاللہ صاحب نے بھی کی، نیب میں قوانین میں ترمیم کے متعلق مختلف اور سیاسی جماعتوں نے بھی بات کی تھی مولانا فضل الرحمان نے بھی کہا۔ اب وہ ترمیم کیا ہونی چاہئے اس پر تو بحث ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے ایک جماعت جو ترمیم چاہتی ہو دوسری جماعت اس کے برعکس چاہتی ہو لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیب کے بعض قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے خاص طور پر اس لئے کہ نیب کو پہلے سے زیادہ موثر بنایا جا سکتاہے۔ لیکن صرف عمران خان نے یہی بات کی بلکہ سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے بھی کہا ہے کہ وفاقی احتسابی کمیشن بننا چاہئے جو فوج کا بھی احتساب کرے اور بیوروکریسی کا بھی کرے اور سیاستدانوں کا بھی کرے اور سارے ہی شعبے جو ہیں ان کو یکساں طور پر سب کو اس شکنجے میں سے گزارا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اصل فیصلہ جو ہے وہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ کو کرنا چاہئے۔ جب یہ مسئلہ قومی اسمبلی یا سینٹ میں آتا ہے تو وہ کیا فیصلہ کریں گے جہاں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لئے بلاول بھٹو زرداری کا ذکر آیا ہے ان کو ایک پلس پوائنٹ جاتا ہے کہ وہ حکومت میں نہیں رہے لیکن بات یہ ہے کہ ان کو بری الذمہ قرار نہیں دیتا اگر جو یہاں سے منی لانڈرنگ ہوئی ہے اگر منی لانڈرنگ میں ان کے اکاﺅنٹس بھی استعمال ہوئے ہیں اگر ان کے والد صاحب کے ان کی، ان کی پھوپھی صاحبہ فریال تالپور کے اکاﺅنٹس بھی استعمال ہوئے ہیں یا ان کے ملتی جلتی کمپنیاں جو ان کے معاملات کو دیکھتی ہیں ان کے اکاﺅنٹس استعمال کئے گئے ہیں تو پھر بلاول پر بھی کیس ہو سکتا ہے۔
زلفی بخاری کی دوہری شہریت کے کیس کی سماعت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا یہ کیس تھا زلفی بخاری صاحب کا۔ زلفی بخاری صاحب کے پاس شہری شہریت تھی جناب عمران خان صاحب کا کہنا تھا کہ نہ وہ پاکستان میں بزنس کرتے ہیں اور نہ ہی ان کا یہاں کوئی انٹرسٹ ہے انہوں نے سارا پیسہ باہر کمایا لہٰذا انہوں نے ان کو ایڈوائزر بنا دیا۔ اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے نوٹس لیا اور انہو ںنے وزیراعظم کو بے لگام اختیارات میسر نہیں ہیں لةٰذا ہم اس بات کو دیکھیں گے کہ باوجود اس کے کہ انہوں نے سارے پیسے باہر کمائے کیا اس کے باوجود دوہری شہریت کا شخص جو ہے وہ اسمبلی کارکن نہیں بن سکتا وہ سینٹ کارکن نہیں بن سکتا وہ پاکستان کی فیڈرل کابینہ میں ایڈوائزر کیسے بن سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر فیصلہ دینا تو سپریم کورٹ کا کام ہے دیکھتے ہیں وہ اگلے ہفتے میں اس پر کیا فیصلہ دیتے ہیں۔
قیصر امین بٹ نے کہا کہ میں وعدہ معاف بن کر سب کچھ بتانے کو تیار ہوں اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ قدرتی انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ وعدہ معافی والا قانون جو ہے یہ کافی عرصہ سے اس پر لے دے ہو رہی ہے دنیا کے بہت سے ملکوں میں اس پر شدید تنقید ہوتی ہے کہ ایک شخص جو فرض کیجئے کہ قتل کے الزام میں بھی وہ پہلے شریک ہوتا ہے پھر جب کوئی گواہ نہیں ملتا تو ان میں سے ٹوٹ کے کہتا ہے کہ ہاں جی میں نے قتل کیا تھا لیکن چونکہ میں وعدہ معاف گواہ ہوں اس لئے مجھے سزا نہیں ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جو سزا ہوئی تھی قتل کی اور اس میں بھی کوئی گواہ موجود نہیں تھا۔ ظاہر ہے بھٹو صاحب نے بطور وزیراعظم پاکستان کے جا کر نواب محمد احمد جو احمد رضا قصوری کے والد تھے ان کو قتل نہیں کیا تھا اس وقت وعدہ معاف گواہ سامنے آ گیا اس نے کہا جی مجھے حکم دیا تھا بھٹو صاحب نے یہ احمد رضا قصوری کے والدکو اڑا دیا جائے تو اس بنیاد پر قتل کے الزام میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو بھی وعدہ معاف گواہ ہونے کی وجہ سے پکڑا گیا تھا آپ نے دیکھا کہ پھر آخر میں ان کو پھانسی کی سزا ہو گئی تھی۔ ساری دنیا میں اس پر بڑی بحثیں ہوتی آئی ہیں اور بعض قانون دانوں کا خیال ہے کہ یہ فیئر نہیں ہے۔ قیصر امین بٹ کے وعدہ معاف گواہ دراصل استغاثہ کی کمزوری کے بعد سامنے آتا ہے جب استغاثہ کی طرف سے کوئی الزام ثابت نہیں کیا جا سکتا تو پھر کوشش کی جاتی کہ جو دوچار بندے پکڑے گئے ہیں جو ان میں سے نسبتاً ذرا کمزور نظر آتا ہے اس کو تھوڑا سا رگڑا دیا جائے اور اس کو کہا جائے کہ یہی اگر تو وعدہ معاف گواہ بن جائے اور اپنے ہی ساتھییوں کے خلاف گواہی دے تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ قانون کا ایسا نکتہ ہے کہ جس پر ہمیشہ سے بحث ہوتی آئی ہے ہو سکتا ہے کہ کسی وقت اس پر یہ نظر ثانی ہو جائے۔
اینٹی کرپشن کے جو کیس تھے اس میں وزیراعلیٰ کی اجازت بڑی ضروری ہوتی تھی۔ سپریم کورٹ نے آج وزیراعلیٰ کی اجازت کی اہمیت کو معطل کر دیا ہے کہ یہ آئینی ہے اور 6,5 اور 10 رول کو ختم کر دیا اور ان کا کہنا ہے کہ کرپشن کے معاملات میں وزیراعلیٰ کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اب جس کے خلاف کرپشن کا مقدمہ ہو گا اس کے خلاف انکوائری کی جائے گی ضیا شاہد نے کہا کہ میں ایک مدت سے اس قانون سے واقف ہوں کہ آج سے 27,26 سال پہلے جب خبریں نکلا تھا اس وقت بھی اس قسم کے کئی کیسز پیش آئے تھے اور بھی خود چل کر ڈائریکٹر اینٹی کرپشن پنجاب کے پاس گیا۔ میں نے کہا کہ آپ جب بھی لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں تو کیا الزام ہوتا ہے کہ پٹواری نے رشوت لے لی۔ کلرک 700 روپے لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔آپ کبھی ڈپٹی کمشنر کو کیوں نہیں پکڑتے۔ سیکرٹری یا کسی ڈپٹی سیکرٹری کو کیوں نہیں پکڑتے، انہوں نے مجھے بڑی تفصیل سے سمجھایا تھا اور قانون کا وہ مسودہ میرے سامنے رکھا تھا، انہوں نے کہا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ 17 گریڈ یا اس سے اوپر کے کسی سرکاری افسر کو گرفتار کرنے یا اس کے خلاف کیس چلانے کیلئے ضروری ہے کہ صوبے کے وزیراعلیٰ سے اجازت لیں، چیف سیکرٹری یا ہوم سیکرٹری اجازت دیتا ہے تو پھر آپ کیس چلا سکتے ہیں۔ پچھلے 26 برس سے جب سے خبریں اخبار شروع کیا ہے کبھی کسی بڑے آدمی کو پکڑے نہیں دیکھا۔ کلرم، چپڑاسی، پٹواری، ضلع دار وغیرہ پکڑے جاتے ہیں، سیکرٹری ایریگیشن نہیں پکڑا جاتا کیونکہ اس کو شیلٹر حاصل ہے۔ اینٹی کرپشن کا سارے کا سارا محکمہ بے کار ہے۔ سارا عملہ بے کار بیٹھا ہے۔ بے تحاشہ کیسز ان کے پاس آتے ہیں وہ کیسز کی تیاری کر کے وزیراعلیٰ کو ایک چٹھی ڈال دیتے ہیں کہ کیا فلاں افسر کے خلاف اجازت ہے۔ آج تک کبھی جواب نہیں آیا کہ ہاں اجازت ہے۔ حکومت اس کو روک لیتی ہے چونکہ بڑے افسروں کو مکمل طور پر تحفظ دیا جاتا ہے۔ ان کے خلاف کبھی کسی قسم کی پکڑ دھکڑ نہیں ہوتی۔ حکومت بھی خاطر خواہ اقدامات کر رہی ہے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان نے تو کمال کر دیا۔ انہوں نے بہت بڑا فیصلہ دیا ہے جس میں وزیراعلیٰ سے اجازت لینے کا قانون ختم کر دیا ہے۔ اب ہر صوبے کا ڈائریکٹر اینٹی کرپشن براہ راست بڑے افسروں پر کیس دائر کر سکے گا۔ یہ بہت بڑا انقلابی فیصلہ ہے۔ بڑے افسر سب ایک دوسرے کو تحفظ دیتے تھے، کسی کے خلاف مقدمہ چلنے ہی نہںی دیتے تھے۔ اب چیف جسٹس کے ایک ہی فیصلے سے یہ سارا قانون عملاً ختم ہو گیا ہے۔ بڑے افسروں کی ایک دوسرے کو بچانے کی ساری کوششیں مٹی میں مل گئی ہیں۔ اینٹی کرپشن سندھ کی جانب سے جہانگیر ترین اور ارباب غلام رحیم کے خلاف انکوائری شروع کرنے کے حوالے سےے انہوں نے کہا کہ اسی قسم کے مقدمات بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض کے خلاف ہوئے، ان کو کافی رعایتی نرخوں پر ہزاروں کنال زمین آصف زرداری نے دیدی اس وقت بڑا شور مچا تھا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ موجودہ کیس جو ہے یہ پیپلزپارٹی نے ایک جوابی کارروائی کی ہے۔ پی پی نے خود جہانگیر ترین کو جو نہ ہی عدالتی فیصلے کے تحت تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری رہے ہوں۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ ارباب غلام رحیم جب وزیراعلیٰ سندھ ہوتے تھے تو ان کے ساتھ مل کر ان کو اتنی زمین دی گئی تھی اور اتنی سستی دی گئی تھی۔ اگر یہ کیس چل نکلا تو اس کی زد میں اور بھی بڑے کیسز آئیں گے۔ اینٹی کرپشن کی کارروائی میں پہلے صوبائی حکومتیں رکاوٹ ہوتی تھیں لیکن گزشتہ روز کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وہ رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ اب 17 گریڈ یا اس سے اوپر کے افسروں کو تحفظ والا سلسلہ ختم ہو گیا، اب وزیراعلیٰ، وزیر، سیکرٹری، ڈائریکٹر جنرل وغیرہ کے خلاف اینٹی کرپشن براہ راست کارروائی عمل میں لا سکتا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ دیا ہے۔ اس کی روشنی میں بہت سارے بڑے افسر زد میں آئیں گے جو پہلے بچتے رہے تھے۔ جب بڑے افسروںکو حاصل استثنیٰ ختم ہو جائے گا اور ان کے خلاف غلط کام کرنے پر کارروائی ہو سکے گی تو ملک کی قسمت بدل جائے گی۔ چیف جسٹس پاکستان کو کرپشن کے خاتمے کیلئے اتنا بڑا فیصلہ دینے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف گزشتہ روز اپنے ایک اور بیان سے مکر گئے، کہتے ہیں کہ العزیزیہ سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ قومی اسمبلی میں وہ خود بیان کر چکے ہیں کہ یہ کارخانہ کس طرح لگایا گیا تھا، اب وہ کہتے ہیں کہ میری قومی اسمبلی کی تقریر کو عدالت میں نہیں پیش کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے لیکن وہ ایک اعتراف تو ہے۔ اب انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ میرے بیٹوں نے جو میرے بارے میں کہا تھا کہ فلاں فلاں کارخانہ میرے والد نے اس طرح لگایا تھا میں اس کی بھی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ میں اس کو یو ٹرن کہتا ہوں یہ نہیں لیا جا سکتا۔ نوازشریف نے پوری تقریر کی تھی کہ میں نے دبئی میں یہ مل کیسے لگائی، پھر یہ کیسے فروخت کی گئی، وہ پیسے سعودی عرب کیسے بھیجے گئے پھر وہاں سٹیل مل کیسے لگائی گئی، اب وہ کہتے ہیں میرا کوئی تعلق نہیں، جو کہا تھا وہ قومی اسمبلی میں کہا تھا جس پر کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں میں جو مرضی کہہ سکتا ہوں۔ نوازشریف نے جو بیان دینے تھے دیے لیکن عدالتیں یقینا ان کے یو ٹرن کو پکڑیں گی، سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گی کہ آپ کس طرح اپنے بیانات سے مکر سکتے ہیں۔ صرف قومی اسمبلی میں ہی نہیں بلکہ باہر بھی میں نے خودکتنی جگہوں پر ان کے بیانات سنے تھے، تقاریر و پریس کانفرنسز میں مسئلے تھے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ میرا اس سے کوئیت علق ہی نہیں۔ عدالتوں میں جب یہ بحث چھڑے گی تو یقینا بہت ساری چیزیں سامنے آئیں گی، عدالت اس کا دوسرا پہلول بھی دیکھے گی۔ نوازشریف ملزم ہیں، جج نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دستیاب عدالت کو سپریم کورٹ نے نوازشریف کیس مکمل کرنے کی 12 نومبر تاریخ دی تھی نے کہا گیا تھا کہ 12 تاریخ کو اس کا فیصلہ کر دیں۔ یہ کارروائیاں اتنی طویل ہوتی ہیں کہ ابھی بھی نوازشریفکے کچھ سوالات پر جواب باقی ہیں۔ احتساب عدالت نے مزید ایک کی توسیع کی درخواست کی ہے، میرا نہیں خیال سپریم کورٹ اس سے زیادہ ان کو کوئی موع دے سکتے، ایک مہینے کے بعد بہرحال فیصلہ دیناپڑے گا۔ حمزہ اور سلمان شہباز کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ لوگ اسی لئے کہہ رہے ہیں کہ نیب قوانین میں ترمیم ہونی چاہئے کیونکہ اکثر ملزمان ان کا بروقت نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جاتا اور جب وہ دندناتے ہوئے پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں تو پھر شور مچایا جاتا ہے کہ ان کا نام تو ای سی ایل میں ہونا چاہئے تھا۔ نیب کو بھی اپنے معاملات کی اصلاح کرنی چاہئے۔ کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ سب نے دیکھا کہ طبیعت کی خرابی کا بہانہ لگا کر اسحاق ڈار لندن میں بیٹھے ہیں اور اچھے بھلے تندرست ہیں۔ انہوں نے وہاں شادی بھی نئی کر لی ہے۔ اطلاعات آئی تھیں کہ ڈرائیور اور باورچی ان کی شادی میں گواہ تھے۔ اب انہوں نے ماروی میمن سے شادی کی ہے۔ بیمار تو ایسے نہیں ہوتے وہ کیسے بیمار ہیں۔ 36 کروڑ بہت کم رقم ہے ان کے پاس بہت پیسے ہیں۔ دبئی میں ان کی 11 بلڈنگز ہیں، ان کا دبئی میں نہ ختم ہونے والا کاروبار ہے۔ 36 کروڑ سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان نے گزشتہ روز اپنی گفتگو میں 4 پوائنٹ دیئے تھے جن میں ایک یہ بھی ہے کہ سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ دونوں کے ساتھ ہمارے معاہدے ہو چکے ہیں، ان ملکوں میں منی لانڈرنگ کے ذریعے جو پیسہ منتقل کیا جا رہا ہے اس سلسلے میں ہمارا معاہدہ یہ کہتا ہے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف کیس کر سکتے ہیں اور ان ملکوں میں ان کے خلاف کارروائی ہو سکے گی لہٰذا اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اسحاق ڈار، آصف زرداری اور نوازشریف کے ان ملکوں میں کافی پیسے پڑے ہیں۔ اخبار میں پڑھا تھا کہ نوازشریف کے لندن فلیٹس کا جو تذکرہ ہو رہا ہے، اس سے کیس زیادہ پراپرٹی نوازشریف کے بچوں کے حوالے سے سامنے آ چکی ہے۔ ہو سکتا ہے ان کا بھی کوئی اس میں حصہ ہو، یہ بات تحقیقات کے بعد ہی سامنے آ سکتی ہے۔ خبریں چھپ رہی ہیں کہ ایون فیلڈ کے علاوہ بھی نوازشریف کے اور بہت سارے اثاثے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر عارف علوی نفیس، ٹھنڈے مزاج اور اچھی گفتگو کرنے والے آدمی ہیں۔ صدر بننے سے پہلے اکثر عارف علوی اسی پروگرام میں مختلف ایشوز پر جوابات دیا کرتے تھے۔ میں نے ان کے بارے میں کبھی کوئی بری بات نہیں سنی۔ لاہور ایئرپورٹ پر بھی جو انہوں نے پروٹوکول لینے سے انکارکیا اس پر خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔ سادہ زندگی کی داغ بیل ڈالی ہے کہ اگر صدر نے جانا ہے تو پھر کہاں ضروری ہے کہ ڈیڑھ سو گاڑیوں کا بیڑہ ان کے ساتھ جائے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ جڑانوالہ میں جو خاتون کا سر مونڈ دینے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا، اس حوالے سے پولیس نے مقدمہ درج کر لیا، ملزمان گرفتار کر کے متاثرہ خاتون کے بچوں کو بھی بازیاب کرا لیا ہے جو بڑی اچھی بات ہے۔ جن افسروں نے گرفتاری کی ہے وہ قابل مبارکباد ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جونہی کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اسی وقت اگر ساری سرکاری مشینری متحرک ہو جائے تو 2 فائدے ہوں گے، ایک توملزم پکڑے جائیں گے، دوسرا یہ تاثر ختم ہو جائے گا کہ یہاں سرکاری مشینری کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv