تازہ تر ین

احتساب کی نئی لہر ، پہلی دفعہ بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا : ضیا شاہد ، حکومت پی آئی اے کا آج خسارہ 40 سال پہلے ہونیوالی بھرتیوں پر ڈال رہی ہے : مشاہداللہ ، چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پچھلی حکومتیں بے تحاشا قرضے لیتی رہی ہیں اب جب عمران خان کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ہے تو دھڑا دھڑ اس کی مخالفت ہوئی ہے۔ ہر پاکستانی ایک لاکھ ستر ہزار کا مقروض ہے۔ ماڈل ایان علی کا پھر ایک سکینڈل سامنے آ گیا ہے۔ پہلے بھی بڑا شور مچا تھا لیکن چونکہ آصف زرداری صاحب کا نام بیچ میں آتا تھا کہ وہ ان کی سرپرستی کر رہے تھے اس لئے معاملہ دبایا گیا تھا۔ لطیف کھوسہ نے اس کا کیس لڑا اور اس کو بچا لیا گیا۔ لیکن یہ جو خبر آئی ہے یہ صرف ایک خبر نہیں ہے بالکل جیسا کہ ہم نے کل کے پروگرام میں کہا تھا کہ ملتان، بہاولپور، ساہیوال سے اتنے زیادہ لوگوں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے اس میں ثقافتی طائفے خواتین کے ہاتھ میں ڈالر دے کر ان کو باہر بھیجا جا رہا ہے ان کے ذریعے منی لانڈرنگ ہو رہی ہے۔ اس میں امیگریشن بھی قصور وار ہیں۔ ایئرپورٹ پر سکیورٹی والے یہ نہیں دیکھتے کہ تھوڑے سے پیسے کی خاطر وہ اس ملک کا کتنا بڑا نقصان کر رہے ہیں کہ یہاں غربت اس لئے ہے کہ یہاں سے جو پیسہ اکٹھا ہوتا ہے وہ تو بے ایمان لوگ مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان سے باہر منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔
ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان میاں غفار نے کل سٹوری بریک کی تھی کہ اتنے شہروں سے منی لانڈرنگ ہو رہی ہے تو دیکھنا چاہئے کہ آج 24 گھنٹے گزرنے پر کتنے لوگ گرفتار ہوئے اور کیا صرف یہ باتیں ہی باتیں رہ جائیں گی ان کو کوئی پکڑے گا بھی۔ یہ کتنا بڑا ملک کا نقصان ہے کہ ایک ایک شہر سے 20, 20, 10,10 لوگ پیسہ جمع کرتے ہیں اور پھر ڈالر میں منتقل کرتے ہیں اور ملک میں غربت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ میاں غفار نے کہا ہے کہ ابھی پی آئی اے ریکارڈ لیں گے پی آئی اے کتنی فلائٹس گئی ہیں کون کون گیا ہے ایف آئی اے ابھی ریکارڈ اکٹھا کر رہی ہے۔ اس میں چونکہ محتلف محکمہ ملوث ہوتے ہیں اس لئے وقت لگ جاتا ہے۔ نیب بھی تحقیق کر رہی ہے اور ایف آئی اے سے بھی ریکارڈ مانگا ہے۔ تھوڑا وقت لگے گا مگر ہر چیز سامنے آ جائے گی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میاں غفار صاحب آپ نے 5,4 دن پہلے سٹوری بریک کی مرجان نامی لڑکی جس کی فحش تصویریں بنانے میں ایک نوجوان گرفتار ہوا تھا وہ ان تصاویر کی بنیاد پر اس لڑکی کے علاوہ بھی دو اور لڑکیوں کو بھی بلیک میل کرتے تھے۔ آپ کی خبر کے بعد خاموشی چھا گئی۔ آپ نے خود اپنے اخبار میں چھاپا ہے کہ کسی لڑکی کے صرف یہ کہنے سے کہ مزید مقدمے کی پیروی نہیں کر سکتی یہ جرم ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ اس جرم میں بیان اقبالی ہوئے تھے کہ یہ واقعہ وہ شخص لڑکیوں کے ساتھ فحش تصاویر بنا کر انہیں بلیک میل کرتا رہا ایک لڑکی مرجان جو عدالت میں پہنچ گئی پولیس کے پاس چلی گئی اور ایک اور لڑکی جس کی تصویریں ان کے پاس تھیں بقول آپ کے آپ نے رفیق رجوانہ کو دکھائی تھیں۔ میں نے وہ تصویریں رانا ثناءاللہ صاحب سابق وزیرقانون کو دکھائی تھیں میں نے بھی گورنر رفیق رجوانہ کو دکھائی تھیں۔ تو اس وقت آپ مجھے بتا نہیں رہے اور نہ اس کی تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا وہ لڑکی زمین اس کو کھا گئی یا آسمان اٹھا کر لے گیا جب ایک لڑکی موجود ہے جو ملتان میں تھی اور اس کی تصویر موجود ہے اس نوجوان کے ساتھ اور وہ ساری قبیح حرکتیں کرتے ہوئے کیوں نہیں اس کو گرفتار کیا گیا۔ اور اس کی بنیاد پر اس نوجوان کے خلاف کیس کیوں نہیں درج کیا گیا۔ جب آپ نے خود ایک عالم دین کا یہ فتویٰ چھاپا تھا کہ صرف اس لڑکی کے یہ کہنے سے کہ میں مقدمے کی پیروی نہیں کرنا چاہتی اس نوجوان کو رہا نہیں کیا جانا چاہئے تھا آپ خاموش کیوں ہیں کیوں آپ نے وہاں باہر کے لڑکوں سے یہ نہیں کہا، کیوں علمائے دین نے اس پر کوئی رٹ کیوں دائر نہیں کی اور کیوں اس کو پکڑا نہیں گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے اپنے گرد شہر میں علماءکے اندر اور کھاتے پیدے لوگوں کے اندر، باہر کے اندر کوئی سمجھوتہ ہو گیا ہے کہ اس لڑکی کو بچانا ہے۔ یہ لڑکی کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے ایک ایکٹ ہوا برائی کا۔ اس برائی کی تصویریں موجود ہیں پھر وہ کون سے قانون کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔
میاں غفار نے کہا کہ یہ فیصلے ہیں وفاقی شریعت کونسل کے، یہ فیصلے ہیں سپریم کورٹ کے دو وکلا ایک شیخ فہیم صاحب، ایک اطہر شاہ بخاری صاحب وہ ایک ریفرنس تیار کر رہے ہیں انہوں نے ہم سے 8 دن مانگے ہیں اس ریفرنس کو ڈپٹی کمشنر کو ہم پرائیویٹ لوگ ہیں ہم اس کے مدعی نہیں بن سکتے قانونی طور پر ڈپٹی کمشنر جو ہے وہ عدالت کو بھیجیں گے پھر اس کی کارروائی شروع ہو گی۔ اس پر انہوں نے وفاقی شرعی کونسل کا ایک ریفرنس لے لیا علماءکا بیان ان کو فراہم کر دیا ہے اس پر وہ ایک ریفرنس تیار کر کے بھیجیں گے اس کے مطابق کارروائی شروع ہو گی پھر اس میں عدالت میں سرکار اس کی مدعی بن جائے گی اس کے بعد کیس نئے سرے سے شروع ہو جائے گا۔
ضیا شاہد نے سوال کیا کہ جو دوسری لڑکی ہے اس کا چہرہ بالکل مرجان سے مختلف ہے اس لڑکی کی تصویریں بھی موجود ہیں وہ وہیں سے ایک مقامی کالج کی طالبہ بتائی جاتی ہیں ملتان کی پولیس کس کے سر سر پر ہما کا پرندہ کیوں بیٹھا ہوا ہے۔ یہ کتنی رشوت لیتی ہے۔ ایک لڑکی جو ملتان میں موجود ہے کالج کی سٹوڈنٹ ہے اس کے باوجود اس کی تصاویر بھی موجود ہے پولیس اب تک اس لڑکی کو گرفتار کر سکی ہے نہ اس دوسری کی لڑکی کی تصویر کی بنیاد پر اس رضا قریشی کو گرفتار کر سکی۔ اس پر بھی وہاں کے قانون دان، علماءبھی خاموش ہیں۔ شہری بھی خاموش ہیں۔
سردیکھیں میں آپ کو بتاتا ہوں ویسے اس لڑکے اور جو دوسری فلم والے لڑکی ہے اس کے بارے میں علی رضا قریشی نے پولیس کی تفتیش میں بتانا تھا کہ یہ کون ہے میں نے یہ خبر بھی چھاپی تھی کہ لیڈیز پولیس سنٹر جو ہے ان کا۔ پھر ہمیں ٹپ ملی کہ لڑکی کالج کی ہے مگر پرائیویٹ کالج کا سارا ریکارڈ چھان مارا مگر وہاں نہ اس نام کی ڑکی ملی اس نام کی ایک اور لڑکی ملی اس کی تصویر میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اچھا یہ تو علی رضا نے بتانا ہے کہ وہ کون تھی۔ علی رضا کو پولیس مکمل تحفظ دے رہی ہے۔ جماعت اسلامی والوں نے یہاں پیش کش کی تھی کہ جناب آپ یہ بتائیں ہم نے وہاں کیا کرنا ہے ہم اس کے لئے تیار ہیں کہ ایک شخص جو اعتراف کرتا ہے کہ اس کے گھر پر بدکاری ہوتی رہی اور وہ خود بھی اس میں شامل تھا اس کو دوبارہ بحال کر کے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں بٹھا دیا گیا کیا ملتان میں کوئی قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ مرجان کے والد نے جو 2½ کروڑ لے لئے ہیں اس سے اس کے باقی سارے معاملات حل ہو جائیں گے۔ کیا 2½ کروڑ سے اس کی بیٹی کی عزت بحال ہو جائے گی۔
میاں غفار نے کہا کہ یہ ملتان یا لاہور کا معاملہ نہیں ہے پورے پنجاب میں یہ صورت حال ہے۔ پولیس اور سارے ادارے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ فردواحد آخر کار ہار مان لیتا ہے۔ جماعت اسلامی والے آئے انہوں نے کہا کہ ہم کارروائی کریں گے وہ کیا کارروائی کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ جس خاتون کے پاس آپ مجھے لے کر گئے تھے وہ کہہ رہی تھی کہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیاں جو ہیں ان کو پروٹیکشن دے رہی ہے ڈی ایس پی تھی وہ آپ کہہ رہے تھے کہ اس کا شوہر خود ایک اخبار نویس ہے کیا آپ نے اس کاپتہ چلایا کہ اس لڑکی کو جب دوسری لڑکی کا نام بھی بتا دیا تھا۔ میں خود پولیس سربراہ، چیف سیکرٹری یا ضرورت پڑی تو خود وزیراعلیٰ کے پاس جاﺅں گا۔ یہ معمولی بات نہیں سمجھتا۔ میں سمجھتا ہوںکہ اگرکسی معاشرے میں اگر برائی اس طرح کھلے عام ہو جائے اور سب لوگ پرے کو منہ کر کے وہاں سے خاموشی سے گزر جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ظلم بڑھتا رہے گا اور گھر گھر برائی پھیلے گی۔ یہ شخص جو آج سے رشوت دے کر چھوٹ گیا ہے آپ کے خیال میں کیا اس کی اصلاح ہو چکی ہے۔ وہ رہا نہیں ہو سکتا۔ ایک جرم ہوا ہے اس میں اعتراف ہے لڑکی کا اعتراف ہے وہ لڑکی صرف یہ بیان پر کیس ختم ہو گیا۔ آپ خبریں میں مذاکرہ کروائیں سکالر، علماءکو بلائیں قانون دانوں کو بلائیں سے ڈسکس کریں کہ کیا اس شخص کی رہائی ہو جانی چاہئے کیا عدالت نے ٹھیک رہا کیا ہے انہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ سپیکر نے شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیئے ہیں، وہ اپوزیشن لیڈر ہیں ان کا حق بنتا ہے۔ اس آرڈر کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس میں شہباز شریف کو شرکت کی اجازت ملے گی، اجلاس کے فوری بعد پھر گرفتار کر لیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیصل رضا عابدی کے کیس کا تعلق اسی چینل سے ہے، ہمارے چینل ۵ پر ہی ایک انٹرویو میں انہوں نے چیف جسٹس کے بارے نازیبا الفاظ کہے تھے ۔ کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ کسی جج یا عدالت کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرے۔ ہمارا چینل بھی ذمہ دار تھا اس لئے معافی مانگی۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن میں منظور وٹو، سابق وفاقی و صوبائی وزراءسمیت بڑے بڑے نام سامنے آ رہے ہیں۔ ایک مدت سے یہ بات گرم تھی کہ اب آہستہ آہستہ بڑے بڑے نامور لوگوں کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے، عام طور پر بڑے لوگوں کو کوئی گرفتار نہیں کرتا تھا، احتساب کی یہ جو نئی لہر آئی ہے اس سے اب واضح ہوتا جا رہا ہے کہ بڑے لوگوں کو بھی پکڑا جائے گا، وزیراطلاعات نے بھی کہا تھا کہ ابھی بڑے بڑے لوگوں نے پکڑے جانا ہے۔ سلمان شہباز بھی گزشتہ روز نیب میں پیش ہوئے تھے، خواجہ سعد رفیق و سلمان رفیق کا نام بھی سننے میں آ رہا ہے۔ ان لوگوں کے شفاف ٹرائل کے حق میں ہوں، صفائی کا پورا موقع ملنا چاہئے، قصور وار کو سزا ہونی چاہئے۔ الیکشن سے پہلے سعد رفیق کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، انتخاب کے فوری بعد گرفتار ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے نون لیگ کے مظاہرے میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے جو نئی چیز سامنے آئی ہے۔ نون لیگ کے مصنوعی اجلاس میں پی پی شامل ہو گئی اس سے لگتا ہے کہ پی پی اپنے لوگوں کے خلاف گرفتاری کے احکامات سے خوش نہیں، نون لیگ کا ساتھ دے گی۔ مصنوعی اجلاس جیسے کام ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ زیادہ بہتر ہوتا اگر سابق سپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال اسمبلی کے باہر احتجاج و شور مچانے کے بجائے ریکوزیشن کے ذریعے اجلاس بلاتے۔ رانا اقبال کبھی سپیکر تھے گزشتہ روز اسی اسمبلی کے باہر سراپا احتجاج تھے۔ انہوں نے تاریں کاٹ کر اندر گھسنے کی بھی کوشش کی جو نامناسب تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف کا یہ کہنا کہ ”اگر یہ اصول رائج ہو گیا کہ لوگوں سے پوچھا جائے تمہاری ظاہری آمدن اتنی نہیں تو پھر پیسہ کہاں سے آیا، تو ملک بھر میں کوئی بھی آزاد نہیں رہے گا سب جیل میں چلے جائیں گے۔“ میں اس سے اختلاف کرتا ہوں ملک میں کروڑوں لوگ موجود ہیں جو ان کی تنخواہ ہے وہی سب کچھ ہے۔ نوازشریف کی دلیل بے بنیاد ہے۔ پاکستان میں آج تک کبھی کسی ملزم نے اپنا گناہ تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشاہد اللہ خان کے دور میں ان کے دونوں بھائیوں سمیت پورا خاندان پی آئی اے سے مستفید ہو رہا تھا۔ اب وہ اپوزیشن میں تو خود الزام لگا سکتے ہیں لیکن ثابت کرنا پڑے گا۔ مشاہد اللہ وزیراطلاعات کو جتنی مرضی ڈانٹ پلائیں، باری تو ان کی بھی آئے گی۔ اخباروں میں خبر شائع ہوئی ہے کہ متعلقہ محکموں نے خورشید شاہ کا سارا ریکارڈ حاصل کر لیا ہے۔ کسی زمانے میں وہ میٹر ریڈر ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر تک کا سفر کیسے طے کیا؟ کھاتے تو سب ہی کے کھلیں گے۔
سنیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ سینٹ اجلاس میں فواد چودھری نے پہلے خورشید شاہ پر الزام لگایا، پھر مجھ پر الزام لگایا کہ میں نے اپنے بھائی پی آئی اے میں بھرتی کرا لئے۔ میں نے کسی کو بھرتی نہیں کرایا، کیا اس ملک میں نوکری کرنا جرم ہے؟ میں 43 سال پہلے پی آئی اے میں بھرتی ہوا اور چھوڑے ہوئے 21 سال ہو گئے ہیں، میرے 3 بھائی اور تھے جو 78ءمیں ریٹائرڈ ہوئے۔ حکومت پی آئی اے کا آج کا خسارہ 40 سال پہلے ہونے والی بھرتیوں پر ڈال رہی ہے، جب قومی ایئرلائن ترقی کر رہی تھی۔ وزیراطلاعات اپنے الزامات ثابت کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ غیر پارلیمانی الفاظ یا گالی کا استعمال وہ کرتا ہے جس کی کوئی ساکھ نہ ہو، مجھے یہ سب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv