تازہ تر ین

عثمان بزدار کی نا اہلی بارے چونکا دینے والے انکشافات ، چیف جسٹس کا بڑا کھڑاک

اسلام آباد(اے این این )سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے سے متعلق کیس میں پیش کردہ رپورٹ میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے دوست احسن جمیل گجر کو ذمہ دار قرار دے دیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ سابق انسپکٹر جنرل(آئی جی)پنجاب کلیم امام نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران نیشنل کانٹر ٹیررازم اتھارٹی(نیکٹا) کے کوآرڈینیٹر خالق داد لک نے 25 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ پیش کی۔ اس سے پہلے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے ازخود نوٹس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی انکوائری رپورٹ مسترد کرتے ہوئے نیکٹا کے نیشنل کوآرڈینیٹر خالق داد لک کو معاملے کی ازسر نو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔بدھ کو سماعت کے دوران عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں احسن جمیل گجر کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ پولیس حکام کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ڈی پی او رضوان گوندل کے تبادلے کے لیے وزیراعلی ہاو¿س سے کرادر ادا کیا گیا اور یہ تبادلہ انتہائی عجلت میں کیا۔عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈی پی او کی تبدیلی میں سابق آئی جی پنجاب اور موجودہ آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے صرف ربڑ اسٹیمپ اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ احسن جمیل گجر یہ کہنا کہ آئندہ ایسا ہونے پر سب کے لیے مسائل پیدا ہوں گے بادی النظر میں مبہم دھمکی ہے۔عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ آئی جی کو انکوائری اور تبادلے کے احکامات ایک ساتھ جاری کرنے چاہیے تھے، اگر انہوں نے خود تحقیقات شروع کروائی تو انہیں رپورٹ آنے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ تحقیقاتی رپورٹ آنے سے قبل ڈی پی او کا تبادلہ شکوک و شہبات پیدا کرتا ہے۔سپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق ٹیلی فونک ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن کا بیان درست ہے، وزیراعلی نے 28 تاریخ کو غیر مناسب وقت پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعلی کو کہیں کہ وہ رپورٹ پر اپنا جواب دیں، انہیں یہ بھی کہیں کہ آرٹیکل 62 ون ایف کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے تعویز کے طور پر باندھ لیں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا ‘وزیراعلی ہاس میں ملاقات کے بعد رضوان گوندل کا تبادلہ ہوا، ان حالات میں عدالت کیا نتیجہ اخذ کرے’ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا وزیراعلی کے پولیس کے کام میں مداخلت کے شواہد نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے کہا ‘وزیراعلی صوبے کا سربراہ ہے، وزیراعلی کے اقدام پر اعتراض نہیں لیکن اعتراض یہ ہے کہ ڈی پی او اور آر پی او کے ساتھ اجنبی شخص نے گفتگو کی’۔انکوائری افسر نے عدالت کو بتایا کہ رضوان گوندل کے تبادلے کے بعد چارج چھوڑنے سے متعلق بھی وزیراعلی ہاس سے رات 11 بجے فون کیا گیا، وزیراعلی کے پی ایس او نے دیگر افسران سے بھی رابطے کیے۔انکوائری افسر خالق داد لک نے کہا کہ شواہد رضوان گوندل کے مقف کو درست قرار دے رہے ہیں، آر پی او ساہیوال نے انکوائری تک تبادلہ نہ کرنے کا کہا۔عدالت کے روبرو خاور مانیکا آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ پولیس نے میرے اور میرے خاندان کے ساتھ زیادتی کی ہے، کیا میں معاملے پر سابق بیوی یا عمران خان سے بات کرتا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے خاور مانیکا کو کہا ‘کیا آپ کو احسن جمیل معتبر نظر آئے، یہاں جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، آپ درمیان سے نکل جائیں، ہم نے اپنی انکوائری کرالی ہے’۔چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعلی کے قریبی دوست احسن جمیل گجر سے متعلق کہا ‘کیوں نہ ان کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے’۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ‘آج احسن جمیل گجر معافی مانگ رہا ہے پہلے اس کی ٹون ہی اور تھی’۔عدالت نے حکم دیا کہ انکوائری رپورٹ کی کاپی وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کو دی جائے جب کہ عدالت نے وزیراعلی سے تین روز میں معاملے پر جواب بھی مانگ لیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آرٹیکل باسٹھ ون ایف بار بار پڑھیں، ہر آدمی کو معافی نہیں مل سکتی، کیا ہم معافی دیتے رہیں گے۔ڈی پی او پاکپتن تبادلہ از خود نوٹس کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی۔اس موقع پر عدالت نے وزیر اعلی پنجاب سے 3 دن میں جواب طلب کرلیا جبکہ رپورٹ کی کاپی وزیر اعلی پنجاب اور آئی جی کلیم امام کو دینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 3 دن کے لیے ملتوی کر دی۔خیال رہے کہ گزشتہ روز ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں احسن جمیل گجر نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی تھی۔احسن جمیل گجر نے اپنے معافی نامے میں لکھا کہ تھا وہ قانون کے پابند شہری اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں اور حکومت کے انتظامی کام میں مداخلت کا کبھی نہیں سوچا۔انہوں نے لکھا کہ ‘وزیر اعلی ہاس اجلاس میں خاور مانیکا اور ان کی فیملی کا موقف پیش کرنے کے لیے شریک ہوا، اپنے اس اقدام پر شرمندہ ہوں اور عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ ہمشہ قانون کے مطابق رویہ اختیار کروں گا۔23 اگست کو خاتون اول بشری بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کو مبینہ طور پر روکنے والے ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔بعد ازاں رپورٹس کے مطابق خاور فرید مانیکا نے غصے میں ایلیٹ فورس کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی تھی اور ڈی پی او رضوان عمر گوندل کو ڈیرے پر آکر معافی مانگنے کا کہا تھا جس پر انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں پولیس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔’ڈی پی او رضوان عمر گوندل نے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو بھی خاور فرید مانیکا سے معافی مانگنے سے انکار کے اپنے موقف سے آگاہ کردیا تھا۔27 اگست کو پنجاب پولیس کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ان کا تبادلہ کردیا گیا، جس کے بعد اوکاڑہ کے تحقیقاتی افسر شاکر احمد شاہد کو پاکپتن کے ڈی پی او کا اضافی چارج دے دیا گیا تھا۔علاوہ ازیں آئی جی پنجاب ڈاکٹر سید کلیم امام نے معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈی پی او کا تبادلہ کسی دبا پر نہیں بلکہ واقعے کے متعلق غلط بیانی کرنے پر کیا گیا۔آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ شہری سے اہلکاروں کی بدتمیزی پر ڈی پی او نے غلط بیانی سے کام لیا، ٹرانسفر آرڈر کو غلط رنگ دینے، سوشل میڈیا پر وائرل کرنے پر رضوان گوندل کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا گیا۔بعد ازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔یاد رہے کہ ڈی پی او پاکپتن تبادلے سے متعلق اس وقت کے آئی جی پنجاب کلیم امام نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں کسی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے سینئر پولیس افسر خالق داد لک کو انکوائری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے والے ڈسٹرکٹ پولیس افسر(ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔ذرائع کے مطابق پولیس نے جمعرات 23 اگست کو خاور مانیکا کو ناکے پر رکنے کا اشارہ کیا مگر وہ نہ رکے، لیکن جب پولیس نے ان کی کار کو روکا تو انہوں نے غلیظ زبان استعمال کی۔ذرائع کے مطابق واقعے کے بعد حکومت پنجاب نے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) اور ڈی پی او رضوان گوندل کو جمعہ 24 اگست کو طلب کیا۔پولیس ذرائع کے مطابق اس موقع پر ڈی پی او رضوان گوندل کو خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنےکا حکم دیا گیا، تاہم ڈی پی او رضوان نے یہ کہہ کر معافی مانگنے سے انکار کردیا کہ اس میں پولیس کا کوئی قصور نہیں۔ذرائع کے مطابق ڈی پی او رضوان کا ٹرانسفر خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی نہ مانگنے پر کیا گیا۔اس معاملے پر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلی پنجاب نے آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے دونوں افسران کو معاملہ ختم کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی، تاہم رپورٹ نہ دینے پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا۔معاملہ خبروں کی زینت بننے لگا تو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس پر ازخود نوٹس لیا اور آئی جی پنجاب کو واقعے کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تاہم آئی جی کی رپورٹ میں کسی کو قصور وار نہیں ٹہھرایا گیا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv