تازہ تر ین

میرے عزیز ہموطنو ۔۔۔ جمہوری صدر کا آمروں کے مشہور فقرے سے آغاز

اسلام آباد (این این آئی) صدرمملکت ڈاکٹر عارف الرحمن علوی نے مسائل کی سب سے بڑی وجہ گروہی مفادات اور کرپشن کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن پر قابو پانے کےلئے احتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے  ہمارا سیاسی نظام مختلف وجوہات کے باعث عدم استحکام کا شکار رہا ہے نئے پاکستان کی سب سے بڑی شناخت سادگی کا فروغ اور بدعنوانی سے پاک نظام ہے اندرونی اور بیرونی قرضوں کے پہاڑ خطرناک حد تک زیادہ ہو چکے ہیں ہمیں اپنی زندگیوں میں سادگی کو اپنانا ہو گا قومیں مشکلات سے گھبرایا نہیں مقابلہ کرتی ہیںحکومت اور تمام لیڈران ملک کی سمت درست کریں  امید ہے حکومت ہر شعبے میں واضح روڈ میپ مرتب کرےگی شفاف نظام حکومت بنائےگی پانی کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے، ہمیں پانی کو ضائع ہونے سے روکنے پر توجہ دینا ہو گی اور پانی کے بے جا استعمال پر قابو پانا ہو گا ہمیں شجر کاری پر خصوصی توجہ دینا ہو گی اور نئے ڈیم بھی بنانا ہوں گےتوقع کرتا ہوں ڈیم پر ہمارے لوگ چیف جسٹس اور وزیراعظم کی اپیل پر مثبت جواب دیں گے  نظام انصاف کی جانب توجہ بھی لازم ہے ملک میں آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگا اور اپنے قومی ورثے کی حفاظت کرنا ہوگینوجوانوں کےلئے میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر روزگار کے مواقع تلاش کرنا ہوں گے، زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جس پر خصوصی توجہ دینی ہوگی آبپاشی کے جدید نظام کو فروغ دینا ہوگاہماری خواتین بہت محنتی ہیں جنہیں زیادہ سے زیادہ مواقع دیئے جانے چاہئیں ملک کے طول وعرض میں نظام تعلیم کو مضبوط کیا جائے، ہماری برآمدات اور درمدات میں توازن نہیں  ہمیں معیشت کی بحالی کے لیے تندہی سے کام کرنا ہوگا حکومت مالیاتی خسارہ کم کرے اور سرمایہ کاری کرنے کے عمل کو آسان بنایا جائے فاٹا کو قومی دہارے میں شامل کرنے کےلئے فاٹا کے عوام کی امیدوں اور توقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں واضح پالیسیاں بنانی پڑیں گی اورفیصلے کرنے پڑیں گے پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پایا جاچکا ہے جس کا کریڈٹ افواج پاکستان کو دینا چاہتا ہوں اس حوالے سے دنیا کو ہم سے سیکھنا چاہیے پاکستان تمام ہمسایہ ممالک سے پرامن تعلقات کا خواہشمند ہے  پاکستان روس  ترکی  ایران سعودی عرب کےساتھ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے  افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ضروری ہے انشا اللہ بیرونی تعلقات میں مزید بہتری آئےگی بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں تصادم اور الزام تراشی کسی مسئلے کا حل نہیںخطے کے پائیدار امن کےلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے پاکستان، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہر سطح پر کاوشیں جاری رکھے گا۔پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بطور صدر مملکت پہلا خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ آج کا خطاب نئے پارلیمانی سال کا نکتہ¿ آغاز ہے۔ اللہ تعالیٰ آنے والے دنوں کو ہمارے لیے باعثِ رحمت و برکت بنائے۔ انہوں نے کہا کہ ان ایوانوں اور راہداریوں سے میر ی شناسائی اس ایوان کے رکن کی حیثیت سے کئی برس پرانی ہے۔ مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی رہی ہیں، اُن کی ادائیگی کے لیے یہاں بیٹھ کر جو کچھ میں کر سکتا تھا میں نے پوری ایمانداری اور صلاحیت کے مطابق انجام دیاہے۔میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اپنے رفقائے کار خصوصاً ارکانِ پارلیمنٹ اور ممبران صوبائی اسمبلیوں، کا مشکور ہوں کہ مجھے پاکستان کے سب سے بڑے آئینی عہدے کے قابل سمجھا۔ میں اپنی بھر پور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریاں سر انجام دوں گا۔میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس سلسلے میں بھی دعا گو ہوں کہ مجھے اِن ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ہمت، طاقت اور توفیق عطا فرمائے۔مجھے پوری امید ہے کہ اس سلسلے میںساتھی اراکین پارلیمنٹ بھی میرا بھر پور ساتھ دیں گے تاکہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اور عوام کی عدالت میں سرخرو ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا سیاسی نظام مختلف وجوہات کے باعث عدم استحکام کا شکار رہا ہے مگریہ امر اطمینان بخش ہے کہ ہماری گذشتہ تین اسمبلیاں اپنی معیاد پوری کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ایک سیاسی کارکن اور ذمہ دارشہری کی حیثیت سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے مسائل کی سب سے بڑی وجہ گروہی مفادات اوربے انتہا کرپشن ہے۔ انتخابات نے بھی یہ بات ثابت کر دی ہے کہ عوام بے ایمانی سے تنگ آچکے ہیں اور ایک پاک معاشرہ چاہتے ہیں ۔کرپشن کو قابوکرنے میں جہاں صاف اور شفاف نظام ضروری ہے وہیں احتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بلاخوف و امتیاز اپنا کام سرانجام دیں ۔ میرا ایمان ہے کہ عوام کی خواہشات کے احترام میں ہی حکومتوں کی کامیابی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ”نیا پاکستان“ بنانے کا عزم کیا ہے اور اسی نعرے پر وہ انتخابات کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں نئے پاکستان کی سب سے بڑی شناخت سادگی کا فروغ، غیر ضروری پروٹوکول کاخاتمہ اور بدعنوانیوں سے پاک نظام ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ہم ایک مقروض قوم ہیں اور ہمیں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے بجائے قرض ادا کرنے لیے بھی مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ معاشیات کے مروجہ اصولوں اور قانون پاکستان کے مطابق قرضوں کی جی ڈی پی شرح کو ساٹھ فیصد سے تجاوز نہیں کرناچاہیے۔ پچھلے کئی برسوں سے ہم اپنے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ہمارے اوپر بیرونی اور اندرونی قرضوں کے پہاڑ خطرناک حد تک زیادہ ہو چکے ہیں جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں سادگی کو اپنانا ہوگا اور بے جا نمود و نمائش کے لیے اصراف سے گریز اور ضرورتوں کو محدود کرنا پڑے گا۔ان اصولوں کو اپنا کر درست سمت کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رہنمائی میں قائم ہونے والی ریاست مدینہ کا ماڈل موجود ہے ۔ اللہ کے رسول صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں یہ ہدایت کی تھی کہ کسی انسان کو دوسرے انسان پر رنگ ،نسل اور مذہب کی بنیاد پر برتری حاصل نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔اسلامی معاشرے کی بنیاد مساوات، عدل اور باہمی بھائی چارے کی بنیاد پر ہی رکھی گئی ہے۔ اس بات کو مصّورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنے فلسفہ میں اجاگر کیا ہے ۔ بانی ¿ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے جس میں انصاف اور عدل کا نظام قائم ہو ، عوام کو بنیادی ضروریات دستیاب ہوں اورریاست عوام کو ان کے حقوق کی فراہمی یقینی بنائے جن کی آئین پاکستان ضمانت دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں یہاں آئین کے آرٹیکل 38بی کا حوالہ دیتا ہوں جس میں کہا گیا ہے کہ ”مملکت تمام شہریوں کے لےے،ملک میں دستیاب وسائل کے اندر،معقول آرام وفرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی ۔آئین کے آرٹیکل 38 ڈی میں کہا گیا ہے کہ ” مملکت ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزو ری، بیماری یا بیروزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہیں بلا لحاظ جنس، ذات، مذیب یا نسل، بنیادی ضروریات زندگی مثلاً خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی“ ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پروگرام کے مطابق مختلف معاشی اور رہائشی منصوبوں پر کام شروع کر کے روزگار اور رہائش کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گئے تویہی تبدیلی ہوگی اور یہی ”نیا پاکستان“ ہو گا جس میں ہم سر اٹھا کر چل سکیں گے اور ہمارے بچے پورے اعتماد کے ساتھ ایک نئی پُرامن اور خوبصورت دنیا کی تشکیل میں حصہ دار بن جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ قومیں مسائل سے دوچار ہو جایا کرتی ہیں اور بعض اوقات مسائل اتنے زیادہ اور گھمبیر ہو جاتے ہیں کہ ترجیحات کا تعین ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے لیکن زندہ اور باہمت قومیں مشکلات سے گھبرایا نہیں کرتیںبلکہ جواں مردی اور حوصلے سے مقابلہ کرتی ہیں ۔ حوصلہ افزاءبات یہ ہے کہ مِن حیث القوم ہمیں ان مسائل کا ادراک ہے۔ ہمارے کھیتوں کادہقان ہو یا ہماری عدلیہ کے افراد ، ہماری فوج کا سپاہی ،سول سروس کا نمائندہ یا ہمارے قلم کار، پاکستان کے دور دراز علاقے کا باسی ہو یا بیرونِ ملک رہنے والا ہمارا ہم وطن ، ہر ایک شخص اپنے تئیں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے ۔ ہمارے اوورسیز پاکستانی جس شوق اور جذبے کے ساتھ پاکستان کی تعمیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ بہت خوش آئند ہے۔ میں حکومت وقت اور دیگر تمام جماعتوں کے لیڈران سے درخواست کرتا ہوں کہ اس موقع پر موجود عوام کے جذبات اور احساسات کو دیکھتے ہوئے بہت تیزی اور جانفشانی سے ملک کی سمت درست کردیں۔مجھے توقع ہے کہ حکومت ہر شعبے میں واضح روڈمیپ مرتب کرے گی اور صاف شفاف ٹرانسپیرنٹ گورننس کو یقینی بنائے گی۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہو چکا ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ہمارے ہاں پانی کی کمی کے باعث زیرِ زمین پانی کا بے دریغ استعمال ہورہاہے جس سے زیر ِ زمین پانی کی سطح بھی خطر ناک حد تک نیچے جاچکی ہے۔بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقے پانی کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر بھی انتہائی مضر اثرات رونما ہورہے ہیں اورگلوبل وارمنگ کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ اور گلیشیئر زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔فضائی اور صنعتی آلودگی کی وجہ سے شہروں کی آب وہوا متاثر ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں شجر کاری پر خصو صی توجہ دینا ہو گی اورنئے ڈیم بھی بنانے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پانی کے ذخائر کی تعمیر حکومتِ وقت کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے۔میںتوقع کرتا ہوں کہ ہمارے عوام اور بیرون ملک پاکستانی، چیف جسٹس اوروزیراعظم کی اپیل کا مثبت جواب دیں گے اور اس کے نتیجے میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے سرمایہ دستیاب ہو سکے گا اور زر مبادلہ کی کمی پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔ صدر مملکت نے کہا کہ ہمیں پانی کے ضیاع کو روکنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ اس سلسلے میں دو اقدامات نا گزیر ہیں۔ ایک یہ کہ آبپاشی کے نظام کو مزید مو¿ثر بنایا جائے اور نہروں و راج باہوں کے ذریعے پانی کے رساﺅ پر قابو پانے کے لیے بھر پور اور جامع حکمت عملی تیار کرکے اس پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔فلڈ ایری گیشن کی بجائے ڈرپ ایری گیشن کو فروغ دیا جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلی لانا ہو گی اورپانی کے بے جا استعمال پر قابو پانا ہو گا۔ہمارے پیارے نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنے میں بھی میانہ روی اختیار کرنے اور اصراف سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پانی اور اس سے متعلقہ مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کے ساتھ ساتھ ناگزیر ہے کہ توانائی اور بجلی کے معاملات پر بھی فوری توجہ دی جائے۔ بجلی کی ترسیل کا نظام بہتربنایا جائے لائن لاسز کم کیے جائیں اور بجلی کی چوری کا سدِباب کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شمالی علاقہ جات، آزادکشمیر اور وطن عزیز کے بعض دیگر علاقے پانی کی دولت سے مالا مال ہیں، ان علاقوں کا ماحول بجلی کی تیار ی کے سلسلے میں قدرتی طور پر سازگار ہے،متعلقہ وزارتوں اور حکام کو دریاﺅں کے بہاﺅپر بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو مزید بڑھانا چاہیے، ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانا چاہیے تاکہ جہاں بھی بجلی پیدا ہو رہی ہو وہ نیشنل گرڈ سے منسلک ہو جائے تاکہ ملک بھر میں بجلی کی ترسیل کانظام مربوط شکل اختیار کر سکے۔انہوں نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ہماری نصف سے زائد آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔زرعی شعبے کی ترقی بھی آبی ذخائر میں اضافے سے مشروط ہے۔موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں قوم سے اس شعبے کی ترقی کاوعدہ کیاہے۔ اس سلسلے میں زرعی ادویات، کھاد اور دیگر زرعی سازو سامان کی مناسب قیمت پر فراہمی کے لیے ایک مو¿ثر اور جامع پالیسی ہونی چاہیے اور اس سلسلے میںماہرین اور کاشت کاروں کے ساتھ ضروری صلاح مشورے کا نظام بھی قائم کرنا چاہیے ۔صدر مملکت نے کہا کہ اراکین پارلیمان تعلیم اور صحت کے معاملات میں بھی عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔اس سلسلے میں خیبر پختونخوا سمیت ملک کے بعض دیگر حصوں میں اچھی اور حوصلہ افزا مثالیں سامنے آئی ہیں لیکن آبادی کا دباﺅ بہت زیادہ ہے اور وسائل محدود۔ہمیں اپنے ملک میں آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگااور ملک میں تعداد کی بجائے تعلیمی معیار کو عام کرنا ہوگا۔میں اپنے پارلیمنٹریز اور میڈیا سے چاہوں گا کہ وہ لوگوں میں زچہ و بچہ کی صحت اور چھوٹے کنبے کی افادیت کی اہمیت کو بھی اجاگرکریں۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ خواتین کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں ان کےلیے تعلیم، روزگار اور اعلیٰ ترین سطح سے لے کر نچلی سطح تک انھیں بااختیار بنانے کی پالیسیاں وضع کی جائیں۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو با اختیار بنائے بغیر کسی بھی ملک کی ترقی کا خواب کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ ہماری خواتین بہت محنتی ہیں اور جو خواتین تعلیم حاصل کر چکی ہیں وہ ہرجگہ وہ نمایاں نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کوزیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں اور قومی معاملات میں شامل کیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ وہ ملک ، معیشت اور معاشرے میں ہماری معاشرتی روایات کے مطابق بلاخوف وخطر اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔ہمارے مذہب اور ہمارے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے بھی اسی بات کی تلقین کی ہے ۔انہوںنے کہا کہ ہماری تقریباً60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ہمیں ان کے لیے میرٹ ، صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ وہ اپنی روزی تلاش کرسکیں،ان کی فنی تربیت کرنا ہو گی تاکہ وہ مناسب ملازمت ڈھونڈ سکیں۔ کاروبار شروع کرنے کے لیے چھوٹے قرضوں کی فراہمی کے عمل کو آسان اور یقینی بنانے پر بھی توجہ دینی چاہیے ۔آپ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ہم غیر تجربہ کار افرادی قوت کی بجائے تجربہ کار افرادی قوت کو دوسرے ممالک میں بھیجیں تو جہاں وہ بہتر اور باعزت روزگار حاصل کرسکیں گے وہیں وہ پاکستان کے لیے بہتر شناخت کا باعث بھی بنیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونماکے لیے کھیلوں کے میدانوں کو بھی آباد کرنا ہو گا۔ فنونِ لطیفہ کی طرف بھی رغبت دلانا ہو گی اور معاشرے کے دانشوروں کی آراءکو پالیسی ساز ی کے عمل میں شامل کرنا ہو گا۔صدر مملکت نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے بچوں کی نشو ونما عالمی معیار سے کہیں کم ہے۔ہمارے بچےStuntingکی وجہ سے ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہیں۔ان بچوں اور ان کی ماﺅں کو مناسب غذا نہیں مل رہی اور ہمارے ذہنوں میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ سماجی ناہمواری اور غربت سے بہت سے مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے علاقائی، معاشی اور سماجی ناہمواری کو دورکرنا انتہائی ضروری ہے خاص طور پر ہمیں بلوچستان اور دیگر دور دراز علاقوں کی تعمیرا ور ترقی پر توجہ دینا ہو گی۔آئینِ پاکستان میں ایک اچھا سوشل کنٹریکٹ موجود ہے مگر افسوس یہ ہے کہ اس پر عمل ہو ہی نہیں رہا۔ میں نئی حکومت سے امید رکھتا ہوں کہ اس سوشل کنٹریکٹ کو ملک میں لاگو کریں گے تاکہ ایک نیا پاکستان وجود میں آسکے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے انسانی سرمائے پر سرمایہ کاری کرنا ہے تاکہ وہ اس ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکیں۔یہ کام صرف اور صرف یکساں تعلیمی نظام اور دیگر سہولتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ملک کے طول وعرض اور خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں نظام تعلیم کو مضبوط بنایا جائے۔ تعلیم کے سلسلے میں خیبر پختونخوا کے تجربے کو دہرانے میں کوئی حرج نہیںکیونکہ صرف حکومت کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کے ذریعے ہی تعلیم عام کی جا سکتی ہے اور اس کا معیار بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۰۳ لاکھ سے زائد بچے دینی مدرسوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔دینی مدارس کے طلبا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے جدیدنصاب تعلیم کو دینی نصاب تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہیے تاکہ یہ بچے تعلیم حاصل کر کے مختلف شعبہ¿ زندگی میں اپنا مثبت اور جاندار کردار ادا کرسکیں ۔ اس سلسلے میں حکومت علمائے کرام کی مشاورت سے ایک متفقہ لائحہ عمل بنائے اور اس پر مستعدی سے عمل کرے۔انہوں نے کہا کہ فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے اعلان کے بعد جلد از جلد اس کو قومی دہارے میں شامل کرنے کے لیے فاٹا کے عوام کی امیدوں اور توقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں واضح پالیسیاں بنانی پڑیں گی اورفیصلے کرنے پڑیں گے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بعض مشکل چیلنجز کا سامنا ہے۔سب سے بڑا چیلنج مسئلوں سے گھری ہوئی معیشت ہے۔ کرپشن کے ناسور نے ملک کی اقتصادیات کو تباہ و برباد کر دیا ہے ، صنعتیں بندہیں ، بے روزگاری عروج پر ہے اور ملک اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہو ا ہے۔ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ قرضوں اور ان کے اوپر سود کی ادائیگی میں صرف کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہمارا تجارت کا توازن بھی دگر گوں ہے۔ہمارے برآمدات اور درآمدات میں توازن نہیں ہے۔ملک کی معیشت پر گردشی قرضوں کا بوجھ پچھلے سالوں میں بڑھ کر ۰۰۱۱ ارب روپے سے زیادہ ہو گیا ہے اور حالیہ دنوں میں پاکستانی روپیہ کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ مہنگائی اور افراطِ زر میں اضافہ ہوا ہے اوراس کا اثر عام آدمی خاص طور تنخواہ دار طبقہ پر پڑا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی معیشت کی بحالی کے لیے تن دہی سے کام کریں اور غربت کے دائرے سے باہر نکلیں ۔صدر مملکت نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ معیشت کی سمت کو درست کرنا اور ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا حکومت کی اہم ترجیح ہے ۔ میں چاہوں گا کہ حکومت مالیاتی خسارہ کم کرے ،ریاست کے ملکیتی اداروں کے مسائل کو حل کرے اورماحول دوست سرمایہ کاری پالیسیاں بنائے اور سرمایہ کاری کرنے کے عمل کو آسان اور سہل بنائے۔ اس میں مختلف محکموں کے کردار کو کم اور صوابدیدی اختیار ات کو ختم کرے اور انھیںایک محدود وقت میں اجازت نامہ دینے کا پابند کرے۔ہمارے بینکوںاور سرمایہ کاروں کو اس سلسلے میں فعال ہونا پڑے گا اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا ہو گا تاکہ ملک میں خود انحصاری کے ساتھ ساتھ ملازمتیں بھی پیدا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ ملک کے تمام ایوان ہائے تجارت اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں اور اپنی تجاویز سے حکومت کو آگاہ کریں تاکہ ضروری پیشرفت کی جاسکے۔صدر مملکت نے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستانی عوام کی استقامت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جہدِ مسلسل اور قربانیوں سے وطنِ عزیز میں دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پایا جاچکا ہے اور انتہا پسندی کے اثرات بھی سمٹ رہے ہیں ۔ میںا فواج پاکستان کو کریڈٹ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے دنیا میں سب سے کامیاب اور تجربہ کار فوج ہماری ہے۔دنیا کو ہم سے سیکھنا چاہیے۔ اس موقع پر میں اپنی جانب سے اور عوام کی جانب سے تمام شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ شہدا نے عظیم ترین قربانیاں پیش کر کے ہمارے ملک کی آبیاری کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں اور اُن کے خاندانوں کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ نظام انصاف کی جانب توجہ بھی لازم ہے تاکہ غریب عوام نسلوں تک مقدمات کے چنگل میں پھنس کر مسائل کا شکار نہ ہوتے رہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہمسایہ ممالک بالخصوص اور دیگر اقوام عالم کے ساتھ اچھے تعلقات کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی خارجہ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکاہے۔چین ، امریکہ ، ایران اور ترکی کے وزرائے خارجہ اور سعودی عرب کے وزیرِ اطلاعات کے حالیہ دورہ¿ پاکستان اور ہمارے وزیرِخارجہ کا دورہ¿ افغانستان سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات میںمزید گہرائی آئی ہے۔ انشاءاللہ العزیز بیرونی تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ ہمیں من حیث القوم اقوام عالم کے ساتھ بالعموم اور اسلامی دنیا کے ساتھ بالخصوص اچھے تعلقات مربوط کرنے ہیں۔ پاک چین تعلقات مثالی دوستی اور باہمی اعتماد پر محیط ہیں۔ہزار موسم ، لاکھ امتحان آئے لیکن پاک چین تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ترہوتے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت پاکستان چین اقتصادی راہداری(سی پیک) منصوبے کی بھر پور حمایت کر تی ہے جس سے خطے میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ میں توقع کرتا ہوں کہ حکومت سی پیک کے منصوبے تیزی سے مکمل کرے گی جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور خطے میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گا۔ اسی طرح وسط ایشیا کے ساتھ مختلف تجارتی و توانائی کے منصوبوں پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کیا جائے گا تاکہ معیشت کی ترقی کے اہداف کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور ہمیں معیشت ، دفاع، ثقافت اور دیگر تمام شعبوں میں باہمی تعاون میںمزید اضافہ کرنا چاہیے۔ترکی کے ساتھ ہمارے تعلقات خصوصی نوعیت کے حامل ہیںجو نہ صرف ہمارے درمیان بلکہ اس پورے خطے میں استحکام کے فروغ کا ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔ہمارے اس ہمسایہ ملک میں دیرپا امن سے ہمارے لیے اور خطے کے لیے تجارت کی نئی راہداریاں کھلیں گی اور ہم اس سلسلے میں ہمیشہ انتہائی خلوص سے کام کرتے رہیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہش مند ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ہر مثبت قدم کا خوش دلی سے خیر مقدم کریں گے ۔صدر مملکت نے کہا کہ کشمیر کے تنازعے کا حل دونوں ممالک کے درمیان پائیدار تعلقات کے لیے لازم ہے۔ تصادم اور بلیم گیم کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتے ۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام مقبوضہ کشمیر کی عوام کی سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے ۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہر سطح پر کاوشیں جاری رکھے گا ۔ کشمیری عوام نے اپنے حقِ خودارادیت کے لیے اپنے لہو سے نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ کشمیری عوام کو ان کے حقِ خود ارادیت سے محروم رکھنا قابلِ مذمت ہے ۔ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کی حالیہ رپورٹ ہمارے مو¿قف کو تقویت دیتی ہے ۔ عالمی برادری اوردیگر انسانی حقوق کی تنظیموںکو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی جارحیت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے خطاب کے آخر میں آپ تمام ارکانِ پارلیمان کو اس ایوان کا حصہ بننے پر مبارک باد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پاکستانی عوام کی فلاح و ترقی کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اقوام عالم میں پاکستان ایک ذمہ دار اور باوقار ملک کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، انشاءاللہ۔اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و نگہبان رہے ۔پاکستان پائندہ باد۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv