تازہ تر ین

ملاقات پر پاکستان کا شکر گزار ہوں،بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قائداعظم نے اپنے قول و فعل سے واضح کر دیا کہ ”پاکستان کیسا ہونا چاہئے؟“ سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر آج تک کسی سیاستدان نے قائداعظم کی روش اختیار نہیں کی قائداعظم اپنے پی اے کا ، ڈرائیور کا، حتیٰ کہ اپنے ملازم کا خرچ بھی خود برداشت کرتے تھے۔ حالانکہ مسلم لیگ کے سربراہ اور قائد ہونے کے ناطے انہوں نے بہت سفر کئے، ایک مرتبہ گھر کی کچھ اشیاءکی خرید سرکاری خزانے سے ہو گئی جس پر ااپ برہم ہوئے اور اپنا چیک منگوا کر اس کے پیسے ادا کئے۔ اب اپنے سیاستدانوں کو دیکھ لیں کتنے لیڈران اس پر عمل کرتے ہیں۔ ایک وزیراعظم اقامہ رکھنے پر نااہل ہو گئے اور کتنے ہی مقدمات بدعنوانی کے زیر غور ہیں۔ دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف کو لے لیں۔ عمران خان کی منی ٹریل کے بارے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن 5 سال تک اس کے بارے تحقیقات کر سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے الزامات غلط قرار نہیں دیئے۔ اسی طرح جہانگیر ترین صاحب منی ٹریل ثابت نہ ہونے پر نااہل قرار پا چکے۔ آصف علی زرداری پر 5 سال تک کرپشن کے کیسز چلے جو بھی ملزم اس سلسلے میں گرفتار ہوتا تھا وہ اپنی جے آئی ٹی کے سامنے اقرار کرتا تھا کہ ہم روزانہ اتنی رقم بلاول ہاﺅس پہنچاتے تھے۔ وزیر خارجہ کو دیکھ لیں وہ عرب ممالک کی فیکٹری میں ملازم تھے وہاں سے تنخواہ بھی لیتے تھے۔ احسن اقبال بھی کسی جگہ ملازم ہیں۔ وزیر مواصلات سعودی عرب میں ڈرائیور ہیں۔ قائداعظم نے جس قسم کا تصور دیا تھا۔ ہمارے تمام لیڈر اس سے کوسوں دور ہیں۔ جی ایم سید نے الیکشن کے وقت قائداعظم کو لکھا کہ میرے مقابل کھڑے ایک امیدوار کو اگر پیسے دے دیئے جائیں تو ون ٹو ون مقابلہ ہو جائے گا اور ہم آسانی سے جیت جائیں گے قائداعظم نے جواب دیا ”میں یہ سیٹ ہارنا پسند کرتا ہوں بہ نسبت یہ سیٹ خریدنے کے۔ اب تو الیکشن کے اخراجات فخر سے بتائے جاتے ہیں اتنے کروڑ خرچ ہوئے۔ قائداعظم نے جو پاکستان بنایا اس کے بارے فرمایا کہ جس پاکستان میں غریب کو روٹی، چھت اور انصاف نہیں ملتا ایسا ملک ہر گز نہیں چاہئے۔ یہ تینوں چیزیں ہی ہمارے ملک سے غائب ہیں۔ غریب کو روٹی، کپڑا، چھت، انصاف ملتا ہی نہیں۔ ایوب خان دور میں مولانا مودودی نے جس جلسے میں یہ الفاظ کہے اس میں میں خود شریک تھا کہ ”ہم نے اپنے لئے پہرہ دار مقرر کئے تھے ان کے لئے اسلحہ بھی ہم نے خرید کر دیا تھا۔“ عدلیہ کا جنازہ ایوب دور میں اس وقت نکل گیا جب دو سوورس کیس عدالت میں پہنچا۔ سندھ کے ایک شخص نے یہ کیس درج کروایا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر صاحب نے یہ فیصلہ دیا جسے آج کل ”نظریہ ضرورت کہا جاتا ہے“ اگر فوجی بغاوت کامیاب ہو جائے تو وہ ”جسٹی فائیڈ“ ہے۔ پرویز مشرف جب اقتدار میں آئے۔ تو انہوں نے اسی عدالت میں کیس کیا۔ جس نے فیصلہ دیا کہ فوج کی آمد صحیح ہے۔ آپ صدر پاکستان بننے کے اہل ہیں۔ آرمی چیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے بڑا سرٹیفکیٹ آج تک کسی آمر کو نہیں ملا۔ آپ آئین میں ترامیم کرنے کے بھی حقدار ہیں۔ عدالتوں نے پارلیمنٹ سے اجازت کے بغیر خود ہی فیصلہ دے دیا۔ اس عدالت نے 58/2B کے تحت دو وزیراعظم کو نکلنے کے بعد ایک کو بحال اور دوسرے کو نااہل قرار دیا۔ بینظیر نکل گئی نواز آ گئے۔ بینظیر نے کہا عدالت پر چمک کا نتیجہ ہے یعنی ججوں نے پیسے لئے ہیں۔ عدالتی تاریخ افسوسناک اور شرمناک ہے۔ جمہوریت کی تاریخ میں شرمناک ہے الیکشن کی تاریخ بھی شرمناک ہے۔ پبلک آفس میں کام کرتے ہوئے گھریلو معاملات کی تاریخ بھی شرکناک ہے کرپشن کی ثقافت بھی شرمناک ہے۔ بجلی کے پلان میں جگا ٹیکس، نیلم جہلم ٹیکس، پی ٹی وی ٹیکس، جو مہینے کا 90 کروڑ بن جاتا ہے آج تک کوئی عدالت میں گیا؟ ہمارے عوام بھی ویسے ہی ہیں اور وکیل بھی ایسے ہی ہیں کلبھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا ہو چکی ہے لیکن وہ انٹرنیشنل کورٹ میں گئے ہوئے ہیں۔ ایک قسم کا اسٹے مل گیا ہے کہ جب تک فیصلہ نہ ہو جائے ہم پھانسی پر عملدرآمد نہیں کر سکے۔ اس اسٹیج پر بیوی اور ماں سے ملاقات کروا دی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ویسے اس پر بہت کائٹ فلائنگ ہو رہی ہے۔ پھانسی کے مجرم ہے رات کو ملاقات کروا دی جاتی ہے۔ بینظیر اور نصرت بھٹو کو اس وقت علم ہوا تھا جب ان کی ملاقات ذوالفقار علی بھٹو سے کروائی گئی۔ بھٹو صاحب کو ابھی اس وقت پتہ چلا جب انہیں کہا گیا کہ یہ آخری ملاقات ہے۔ ڈاکٹر بھی آ گیا مجسٹریٹ بھی آ گیا، یا دیو کے خلاف انٹرنیشنل کورٹ سے حق میں فیصلہ آ جاتا ہے تو ہم اسے پھانسی نہیں دے سکتے اور اگر خلاف آتا ہے تو ہم پھانسی دے سکتے ہیں۔ طاہر القادری کی طرح، سیالوی صاحب نے بھی اب ایک تاریخ دے دی ہے۔ اس سے کیا ہو گا زیادہ سے زیادہ ایک تحریک ہی چلے گی۔ تحریکیں ملکوں میں چلتی رہتی ہیں میں نے تو مشورہ دیا تھا کہ اگر ثناءاللہ صاحب کے استعفے سے معاملہ حل ہوتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ پرویز رشید کی طرح رانا صاحب بھی کچھ آرام کر لیں گے۔ سیالوی صاحب نے بھی جتنے استعفوں کا اعلان کیا تھا۔ وہ نہیں کر سکے۔ نوازشریف صاحب احم رحم دل آدمی ہیں جو کوئی ان کی خدمت کرے وہ اچھا بدلہ دیتے ہیں۔ مشاہد اللہ صاحب میاں صاحب کے خاص وفادار ہیں۔ میاں صاحب نے انہیں خوب نوازا ہے اب بھی ماحولیات کے وزیر بنا دیئے گئے ہیں۔ مشاہد صاحب نے یہ کہا کہ شہباز شریف کا کارڈ نواز شریف نے اپنی جیب میں رکھا ہے جو وقت پر کھیلیں گے۔ اصل میں انہوں نے خبر کو ”کچا“ کیا ہے شہباز شریف ایک مضبوط آدمی دکھائی دیتے تھے۔ لیکن وہ مثال ہے گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ پہلے مریم نواز پھر کلثوم نواز ان کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ مشاہد اللہ کے بھائی پی آئی اے کے صدر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان پر نوازشات بہت زیادہ ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں تو سچ ہو گا۔ ہمارے سورس کے مطابق شہبازشریف نے کہا ہے کہ میں ایم پی اے اور ایم این اے دونوں سیٹوں سے الیکشن لڑوں گا۔ پھر دیکھوں گا حالات کیسے ہوتے ہیں۔وزارت عظمیٰ کی بات سنی تو خوشی ہوئی۔ لیکن اگر کوئی رکاوٹ ہوئی تو پنجاب کا ایم پی اے اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا حقدار بھی رہ سکوں۔ مریم نواز کا سنا ہے کہ وہ بھی دو سیٹوں سے الیکشن لڑیں گی۔ بعد میں دیکھا جائے گا کہ انہیں کہاں کھپانا ہے۔ نوازشریف کو مشورہ بھی دیا کہ اس تصور کو حتم کریں کہ ان کا بھائی وزیراعظم، بیٹی وزیراعلیٰ اور سمدھی اسحاق ڈار واپس آ کر وزیر ہو گا، پارٹی کے باقی افراد کو بھی موقع دیں۔ رضا ربانی اچھے قانونن دان ہیں اور قانون پر اچھا اسٹینڈ لیتے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی منفی بات بھی سامنے نہیں آئی۔ انہوں نے تڑی کے طور پر کہہ دیا ہے کہ پتا کراﺅں گا کہ کس نے بریفنگ کی بات باہر آ کر کی۔ بی بی سی نے اس حوالے سے جو خبر نشر کی ہے اس میں تین نام آتے ہیں۔ بعض نے دو کا نام لیا ہے۔ ایک تو سنیٹر عبدالقیوم، دوسرے مشاہد اللہ صاحب ہیں وہ سنیٹر اور سیکرٹری اطلاعات ہیں۔ تیسرا نام سنیٹر مشاہد حسین ہیں۔ وہ (ق) لیگ کے ہیں۔ وہ ہر وقت حکومت میں ہوتے ہیں آدھے ادھر آدھے اُدھر ہوتے ہیں وہ وزیرخارجہ بننے کیلئے بے چین ہیں۔ رضا ربانی صاحب ذرا بی بی سی کی خبر پر اسے شوکاز نوٹس تو دیں۔ بیان برائے بیان دینے کی بجائے اس پر ایکشن لیں۔ ہم نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے گزارش کی تھی کہ آپ نے کہا تھا میں تین دنوں کے بعد تفصیلات بتاﺅں گا۔ آرمی چیف کی بریفنگ کا جھوٹا سچا ورژن سامنے آ چکا ہے تو جناب میجر جنرل آصف غفور صاحب بہادر آپ صحیح پوزیشن کیوں نہیں بتا دیتے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv