تازہ تر ین

ہو نہیں سکتا نواز شریف کو سزا ہوجائے اور زرداری بچ نکلیں :ضیا شاہد


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ہماری جمہوریت سازشوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ اوپر سے کچھ اندر سے کچھ ہے سیاستدان اپنے دروازے کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں جو آنا چاہے آ جائے جو جانا چاہے چلا جائے۔ برطانوی پارلیمانی نظام سے یہ سسٹم ہمارے ملک میں آیا ہے۔ لیکن وہاں جو بھی اپنی پارٹی میں ہوتاہے وہ مضبوطی سے اسی شاخ پر بیٹھا رہتا ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنے چہروں پر تین چہرے چڑھا کر رکھتے ہیں۔ جہاں جس کی ضرورت ہو اسے سامنے لے آتا ہے۔ جیسا ہمارا ملک ہے۔ ویسی ہماری سیاست ہے، ویسے ہی ہمارے لیڈر ہی سیاسی جماعتیں بھی لڑھکتی رہتی ہیں کبھی ادھر کبھی ادھر۔ یہ اصول ہے جیسے ہم ہوتے ہیں ویسی ہماری عدالتیں ہوتی ہیں۔ ہمارا پورا سسٹم ”چوک“ ہو چکا ہے۔ ادارے ختم ہو چکے ہیں۔ قانون کی دھجیاں اُڑ چکی ہیں۔ ہمارے پیمانے تبدیل ہو چکے ہیں۔ شرفاءکے لئے فیصلے اور ہیں۔ اور بیچارے غریب کے لئے انصاف مختلف ہے۔ ایک نااہل شخص کیلئے 40 گاڑیاں آگے پیچھے دوڑ رہی تھیں۔ اسحاق ڈار نے گزرنا تھا تو لوگوں کے منہ دوسری جانب کروا دیئے گئے۔ دریائے ستلاج کا جب سے پانی بند ہوا ہے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ایکڑ زمین دونوں جانب سے خالی ہو گئی۔ سلیمانکی سے لے کر پنجند تک ساری زمین خالی ہو گئی۔ میں نے ”پاکستان“ اخبار نکالا تو وہاڑی کی 300 مربع زمین اکبر علی بھٹی ایم این اے نے لیز پر لے رکھی تھی۔ وہ اترے تو یہ زمین تہمینہ دولتانہ کے پاس آ گئی دریا خشک ہو گیا تو تمام زمین بڑے لوگوں نے قبضہ کر لی۔ غریب تو ایک ایک مرلہ بلکہ ایک ایک فٹ پر جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ جہانگیر ترین 500 مربع کس بنیاد پر قبضہ کر کے بیٹھا ہوا ہے۔ تمام اہم لوگوں نے 100 سالہ لیز پر ہزاروں مربع زمین قبضہ کر رکھی ہے۔ ہماری قوم میں زمین کی اسی قدر لالج ہے کہ خدا کی پناہ۔ لوگ یہاں بیٹھے ہیں اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہیں ہزاروں مربع زمین چولستان میں الاٹ ہو جاتی ہے۔ نوازشریف پر جب تک مقدمہ چل رہا ہے چلے گا۔ جب فیصلہ ہو گا تو وہ خبر ہو گی اس کے دوران بحث مباحثہ صرف میڈیا کی رونقیں ہیں۔ میں نے ایک بڑے لیڈر سے اپنے گھر یہ سوال کیا کہ اس بندے کو پکڑ رکھا ہے اس بڑے بندے نے مجھ سے پوچھا ااپ کتنے پیسے دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا سیاست ہزاروں، لاکھوں سے نہیں ہوتی۔ اس پر پیسے لگتے ہیں پیسے مالدار کے پاس ہوتے ہیں وہ پیسہ لگاتا ہے تا کہ اور پیسے کمائے۔ ہماری ساری سیاست اسی اصول پر کھڑی ہے۔ میں پنجاب اسمبلی گیا اور سپیکر کو کہا کہ ہماری سلور جوبلی ہے۔ انہوں نے شفقت فرمائی مجھے چائے وغیرہ پلائی۔ میں نے بحث کی کہ لوگ اجلاس میں کیوں نہیں آتے۔ انہوں نے جواب دیا میں کسی کو مجبور نہیں کر سکتا۔ یہ بات عمران خان کو بھی کہی کہ پہلے آپ اپنا امیدوار کامیاب کرواتے ہو پھر چار چار سال اسمبلی میں نہیں آتے۔آگے ہو کر بائیکاٹ کرتے ہو۔ میں نے اپوزیشن لیڈر محمود الرشید سے سوال کیا کہ تمہارے بندے کیوں نہیں آتے؟ خواتین ہی آ جائیں تو کورم مکمل ہو سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جس دن میاں شہباز شریف اسمبلی میں آنا شروع کر دیں گے۔ ہمارے لوگ بھی آ جائیں گے۔ وہ پورے سال میں ایک بار اجلاس میں آئے۔ کتاب میں لکھا ہے پارلیمنٹرین کے ’دو‘ رول ہیں۔ نمبر ایک وہ ایک سال تمام معاملات دیکھتا ہے اور بجٹ سازی میں تجویز دیتا ہے۔ نمبر دو وہ قانون سازی کرواتا ہے یا اس میں ترامیم کرواتا ہے۔ برطانیہ میں سارا سال قانون سازی ہوتی رہتی ہے۔ ہمارے یہاں قانون سازی کا معیار یہ ہے کہ وزیراعظم کو نااہلی سے بچانا ہے اگلے الیکشن مرضی کے کس طرح کروانے ہیں۔ آئین سازی کر دو۔ترامیم کر دو ہمارے ارکان پارلیمنٹ مانگتے کیا ہیں۔ کتنی نوکریاں، کتنی سہولیات؟ میاں نوازشریف کی سوئی ”کیوں نکالا“ پر اٹک گئی ہے۔ اگر ان ہی طبقات نے حکمرانی کرنی ہے تو کیوں نہ بلوچستان کی طرح باریاں بانٹ لیں۔ اسمبلی کی مدت بڑھا کر چھ سال کر دیں۔ دو سال مسلم لیگ (ن) کے کے، دو سال پی پی پی کے اور دو سال تحریک انصاف کو حکومت دے دیں۔ لمبی ایکسرسائز کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میاں نوازشریف خوبصورت انسان ہیں۔ وہ لوگوں کے دلوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ زرداری صاحب مان جائیں تو میاں صاحب کو بادشاہ بنا دیں اور انہیں دس سال دے دیں۔ ن لیگ اور پی پی پی میں مفاہمت ہو جاتی ہے سنا ہے دونوں جانب سے دو، دو رکن کمیٹی بن چکی ہے جو معاملات طے کرے گی۔ بالآخر مک مکا ہو جائے گا۔ اگر میاں نوازشریف کو نااہلی کے بعد سزا ہو گئی تو کیا لاڑکانے والا بچ جائے گا۔ ہر سوسائٹی کا کچھ نہ کچھ معیار ہوتا ہے ہری پور سے آنے والی خبر کہ باپ نے بیٹی سے نکاح کر لیا اور مولوی سمیت 7 افراد روپوش ہو گئے۔ اس سے مولوی کا معیار بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مولوی نے ولدیت کے خانے میں نام نہیں دیکھا ہو گا؟ ہماری سوسائٹی میں بے پناہ ”ریپ“ کیسز ہوتے ہیں جس میں معصوم بچیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے ذمہ دار ہمارے چینل، نیٹ، موبائل کا استعمال ہے۔ موبائل پر پیغامات کھلے عام آ رہے ہیں کہ مساج سینٹر کھلے ہوئے ہیں۔ لڑکے، لڑکیاں موجود ہیں۔ ہمارے پیارے نبی نے قیامت کی دیگر نشانیوں میں ایک اہم نشانی یہ بتائی کہ جس زمانے میں بدکاری عام اور نکاح مشکل ہو جائے گا۔ قیامت قائم ہو گی۔ اس میں کتنی حکومت ہے۔ بچپن میں سنتے تھے کہ بچے اور بچیوں کی شادی اس عمر میں کر دینی چاہئے۔ لیکن سسٹم دیکھیں۔ لڑکے کو پڑھتے پڑھاتے، سیٹ ہوتے 40,35 سال گزر جاتے ہیں۔ اسی طرح بچیوں کی عمریں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ہم نے نظام کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہم خود برائی کے راستے کھولتے ہیں اور پھر انہیں جائز قرار دیتے ہیں۔ ہر قسم کی بے حیائی کو پناہ حاصل ہے۔ ہری پور کے اس بے غیرت باپ کو الٹا لٹکا دینا چاہئے مولوی کو پٹرول ڈال کر آگ لگا دینی چاہئے۔ پولیس ہو یا عدالت کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ سینکڑوں وکیل ملزموں کو بچانے آ جائیں گے۔ برائی کا ہر راستہ محفوظ بنا رکھا ہے۔ مولوی حضرات نے نکاح رجسٹر پیچھے سے خالی چھوڑ رکھے ہوتے ہیں۔ جو بدکاری میں پکڑا جاتا ہے سب سے پہلے پچھلے ریکارڈ میں پیسے دے کر نکاح کا اندراج کرواتا ہے۔ مختاراں مائی کا کیس ہم نے پکڑا۔ سب سے پہلے خبریں وہاں پہنچا۔ میں نے گورنر خالد مقبول کو کہہ کر وہاں وزیر کو بھیجنے کو کہا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو لوگ بے پناہ خوش تھے۔ کہہ رہے تھے 5 لاکھ پنجاب حکومت نے دیا ہے۔ 10 لاکھ وزیراعظم نے دیا ہے۔ 15 لاکھ غریب لوگوں کو ملا۔ وہاں ان کے پاس چارپائی تک نہ تھی۔ ان کی موجیں لگ گئیں۔ واپسی پر میری گاڑی کے سامنے ایک بوڑھا لیٹ گیا کہ جناب ہمارا بھی انصاف کر کے جائیں۔ اس کے ساتھ 6 بندوں نے کہا میری بیٹی کے ساتھ 10 بندوں نے زیادتی کی ہے۔ وہاں کے ناظم نے اس کو گریبان سے پکڑا کہ کب یہ واقعہ ہوا۔ وہ مان گیا کہ انہیں 15 لاکھ ملے ہیں مجھے 5 لاکھ ہی دے دو۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv