تازہ تر ین

نواز شریف پر مقدموں کی بھر مار زداری کو کوئی نہیں پوچھتا: ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں محمد نوازشریف نے ایک صحت مندانہ سوچ کا مظاہرہ کیا ہے اور عدالتوں سے ٹکراﺅ کی بجائے خود پیش ہونے کی روش کو قائم رکھا ہے۔ آج بھی ملک میں نوازشریف کی حکومت ہی قائم ہے۔ شاہد خاقان عباسی انہیں ہی اپنا وزیراعظم قرار دیتے ہیں۔ حکومتی ادارے ان کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں پنجاب لیول پر ہی سہی مکمل پروٹوکول دیتے ہیں۔ یہ اچھا عمل ہے کہ میاں صاحب اپنی صاحبزادی کی طرح عدالتوں کا مذاق نہیں اڑاتے۔ بلاوجہ فوج کو سول معاملات میں نہ کھینچیں۔ اگر میاں صاحب کا فیصلہ فوجی عدالتوں نے کرنا ہوتا تو چند دن میں کر کے سائیڈ پر رکھ دیتے۔ یا بری ہو جاتے یا سزا مل جاتی۔ قانون دانوں کی اکثریت کہتی ہے۔ عدالتں نے نوازشریف کے معاملے پر بہت نرمی برتی ہے۔ شرجیل میمن درست شور مچا رہے ہیں کہ اسی قسم کا کیس میرا ہے۔ میرا نام ای سی ایل میں ڈال دیا جاتا ہے جبکہ نوازشریف صاحب آن بان اور شان سے آتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ میاں نوازشریف صاحب کا مقام دنیا میں کافی بڑا ہے۔ وہ سب سے بڑا سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری صاحب کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ کتنے ہی مجرمان نے یہ اقرار کیا ہے کہ ہم دن بھر کی کمائی (بھتہ) اکٹھا کر کے بلاول ہاﺅس بھیج دیا کرتے تھے۔ مجال ہے بلاول ہاﺅس کو ایک بھی نوٹس گیا ہو۔ اسی طرح آصف زرداری کے خلاف ایک بھی نیا مقدمہ درج نہیں ہوا۔ شاید کوئی پچھلے مقدمات ہوں تو کیوں عزیر بلوچ نے کتنے ہی انکشافات کئے۔ ہماری عدالتیں معذرت کے ساتھ ملزمان خود چنتی ہیں۔ معلوم نہیں نوازشریف کی باری کس طرح آ گئی۔ وہی جرم آصف علی زرداری کرتے ہیں تو انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ وہی جرم نوازشریف کریں تو انہیں (11) نوٹس آ جاتے ہیں اسی طرح مریم بی بی کو ایئرپوٹ پر سمن پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ فریال تالپور کے خلاف کتنے نوٹس ہوئے۔ یا کرپشن کے مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ہمارے لندن کے نمائندے بتا رہے تھے کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ میاں صاحب کو اگر گرفتار کیا گیا تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ یہی آفر شہباز شریف صاحب نے بھی دی ہے۔ شیخ رشید کا شاہد خاقان عباسی پر ایل این جی کا الزام درست ہوتا تو اب تک وہ پکڑے جاتے۔ ہماری عدالتوں پر آفرین ہے۔ غلام اصحاق خان، پی پی پی کے وزیراعظم بینظیر کو فارغ کر دیتے ہیں، سپریم کورٹ کہتی ہے درست کام کیا۔ وہی الزام نوازشریف پر لگا۔ غلام اسحاق خان نے کہا آﺅٹ۔ سپریم کورٹ نے انہیں کھٹ سے بحال کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں 4 کے مقابلے میں 3ججوں نے بتایا کہ انہیں پھانسی نہیں دینی چاہئے۔ 4 نے مخالفت کی اور انہیں پھانسی لگ گئی۔ ان چار میں چھوٹے قد کے نسیم حسن شاہ نے دو سال بعد عجیب بیان دے دیا کہ ہم پر بڑا دباﺅ تھا۔ حالانکہ اُردو ڈائجسٹ میں چھپنے والے ایک مضمون میں انہوں نے کہا کہ ضیاءالحق نے مجھ پر کبھی دباﺅ نہیں ڈالا۔ 8 یا دس سال کے بعد ان کا ضمیر جاگا۔ تو انہوں نے سچ بول دیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ جب میں کراچی میں جاتا ہوں تو لوگ مجھے پکڑ کر کہتے ہیں کہ او پنجابیو! تم نے تو عدالتوں سے فیصلے لینے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ سندھی کے خلاف فیصلہ خلاف اور پنجابی کے حق میں آ جاتا ہے۔ پاک فوج، بہادر فوج نے آصف زرداری کے بیان پر انہیں کچھ بھی نہیں کہا، انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی۔ اور واقعی تین سال بعد راحیل شریف تو نوکری ختم کر کے سعودی عرب چلے گئے اور زرداری صاحب یہاں باقی رہ گئے۔ دبئی میں زرداری کا بہت خوبصورت گھر ہے۔ بینظیر بھی یہاں رہا کرتی تھیں۔ وہ پوش علاقے میں واقع ہے۔ ادارے عدالتوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں۔ کسی کو ریلیف مل جائے گا تو کیا ہو گا۔ کوئی نیب کے کہنے پر کیس کھول دے گا تو کیا ہو گا؟ میاں نوازشریف کے وارنٹ پر بہت شوروغوغا مچایا گیا ہوا کیا۔ قابل ضمانت فارنٹ تھے۔ وہ بیل کروا لیں گے۔ ایم کیو ایم ایک ایسی جماعت ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ ان کے منہ میں ان کے دودھ کا فیڈر ہوتا ہے۔ وگرنہ تو ان پر اتنے اتنے کیس ہیں کہ انتہا۔ 250 تو فاروق ستار پر ہوں گے۔ ان کے وارنٹ بھی نکلے ہوتے ہیں کوئی مائی کا لعل انہیں نہیں پوچھتا۔ پولیس کا نظام بھی عجیب ہے۔ ”میرا“ پر ایک کیس ہو گیا۔ تھانے والوں نے عدالت میں لکھ کر دیا کہ سمن کی تعمیل نہ ہو سکی۔ حالانکہ اسی دن وہ ایوانِ اقبال میں مجرا کر رہی تھی۔ ہمارے یہاں انصاف بکتا ہے۔ جس لیول پر چاہیں قیمت ادا کریں اور انصاف حاصل کر لیں۔ بھٹو دور میں ولی خان کو بین کیا گیا۔ اجمل خٹک افغانستان میں تھے۔ عطاءاللہ مینگل، شیر محمد مری کو بین کیا گیا۔ ان میں سے ایک آدمی کا ڈرائیور پشاور میں پکڑا گیا۔ اس کا نام ظفر اقبال تھا۔ اسے پولیس نے اتنا مارا کہ اس کی کمر سے خون بہہ رہا تھا۔ ڈرائیور کی گاڑی سے کوئی رسائے یا مواد ملا۔ باقی کے بارے پوچھتے ہوئے پولیس نے اس بیچارے کو اتنا مارا کہ اس کے جسم سے خون بہہ نکلا۔ جس لیڈر کا وہ ڈرائیور تھا۔ وہ حیدرآباد کی ٹربیونل عدالت میں A کلاس میں موجود تھا۔ اس لیڈر نے ایک دن شکایت کی کہ ہمیں جو جھینگے دیئے جا رہے ہیں وہ باسی ہیں۔ الفتح میں اس کی تفصیل چھپی۔ یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ ان افراد کے لئے کراچی سے سپیشل ہیلی کاپٹر پر تازہ جھینگا اور مچھلی لائی جاتی اور انہیں دی جاتی۔ جس ملزم کی گاڑی سے مواد برآمد ہوا تھا وہ تو جھینگے کھا رہا تھا اور اس کا بدبخت ڈرائیور پولیس کے چھتر کھا رہا تھا۔ اسی طرح ان حکمرانوں پر اگر غداری ثابت بھی ہوئی تو انہیں اعلیٰ قسم کے ریسٹ ہاﺅس میں رکھا جائے گا۔ اے کلاس ملے گی تمام خواہشات کی تکمیل ہو گی۔ اس وقت عدلیہ کا ٹیسٹ ہے کہ وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ لاہور شہر کی صدر کی عدالت میں میں نے دیکھا ملزمان کو چھ، چھ گھنٹے واش روم نہیں جانے دیا جاتا۔ میں نے اپنے دوست وزیر قانون سے کہہ کر وہاں واش روم بنوایا۔ کیمپ جیل کو میں نے اس وقت دیکھا جب فلش سسٹم موجود نہیں تھا۔ عدالتوں، انتظامیہ اور بار کونسلوں سے گزارش ہے کہ غریب کے بچے اگر پکڑے جائیں تو ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کا معائنہ کریں۔ اب بھی حوالاتوں میں واش روک تک نہیں ہے۔ بخشی خانوں میں 50 کی گنجائش والی جگہوں پر 100 ڈال دیئے جاتے ہیں۔ برائے مہربانی شرفاءکو دیئے جانے والی سہولتوں میں سے چند سہولتیں عوامی جیل خانہ جات اور بخشی خانوں کو بھی مہیا کر دیں۔ صدر نیشنل بینک وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں اصل قصور تو انہیں بنانے والوں کا ہے۔ نیشنل بینک تمام بینکوں کا سرکاری بینک ہے۔ اسے ہر دور میں لوٹا گیا۔ آخر سعید احمد کو کسی نے تتو بنایا ہو گا۔ سعید احمد کو کسی نے بتایا۔ ان سے کسی نے فائدہ اٹھایا۔ پی پی پی پی دور میں بینظیر وزیراعظم تھیں اور نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ اس دور میں بی بی نے نوازشریف کے جہاز کراچی میں روک لئے۔ دونوں پارٹیوں میں زبردست جنگ تھی۔ اس دور میں دونوں نے اپنے ایم پی اے کو نوازنا شروع کیا۔ اس کے لئے کوئی انہیں سوت لے گیا۔ کوئی انہیں مری لے گیا۔ کوئی انہیں چھانگا مانگا لے گیا۔ بینظیر دور میں عدم اعتماد کے وقت جہاں ایم این اے، ایم پی اے کو رکھا گیا کیا رونقیں ہوتی تھیں۔ کیا پینے پلانے کا سلسلہ ہوتا تھا۔ کیا ناچ گانوں کی محفلیں ہوا کرتی تھیں، لوگ تو اس کی دعائیں کرتے تھے کہ ایسا ہو۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ دو ایم پی اے کو ایک کمرے میں بند کیا گیا میں نے باہر سے کھولنا چاہا تو مجھے روک دیا گیا کہ یہ وہ ایم پی اے ہیں کہ یہاں سے پلال بھی لے گئے ہیں اور بی بی سے پیسہ بھی وصول کر لیا ہے۔ ہم نے انہیں پکڑ کر اندر دے دیا ہے۔ اب اس وقت نکالیں گے جب ان کی ضرورت ہو گی۔ دونوں جانب سے خوب نوازا جاتا تھا۔ لوٹنے والے بھی دونوں طرف سے لوٹتے رہے۔ دونوں طرف کی پارٹیوں کی لڑائی کی بدولت، ملک میں جمہوریت کا خانہ خراب ہو گیا۔ ایم این اے، ایم پی اے نوکریاں بانٹتے ہیں۔ بلکہ بیچتے ہیں۔ کسی کے اندر ہمت ہے کہ پیسے ادا کرنے کے بعد متعلقہ ایم این اے یا ایم پی اے سے پوچھ سکے کہ ہمارا کام کیوں نہیں ہوا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv