تازہ تر ین
Nisar

چوہدری نثار کی قیادت پر متفق ،ارکان اسمبلی کون ؟

لاہور (خصوصی رپورٹ)بالآخر بلی تھیلے سے باہر آ گئی اور جس فارورڈ بلاک کی باتیں آج تک افواہوں کی صورت اقتدار کی غلام گردشوں میں گردش کر رہی تھیں۔ وہ سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ اطلاعات تھیں کہ اتوار سے پہلے چالیس کے لگ بھگ لوگ نوازشریف فیملی کی طرف سے اختیار کی گئی حکمت عملی سے اختلاف کا اظہار کریں گے۔ ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ افراد ابھی اکٹھے نہیں ہوئے، یہ دو سال پہلے اراکین اسمبلی میں ابتدائی بے چینی کے بعد وجود میں آ گیا تھا۔ ایک ابتدائی میٹنگ بھی ہوئی جس میں 44 افراد کی شمولیت کی اطلاع تھی، تاہم اس خبر کو کسی جانب سے تصدیق یا تردید کے مرحلے سے نہیں گزرنا پڑا ۔ ابتدا میں وزیراعظم کی جانب سے ملاقات کا وقت نہ ملنا اور اراکین اسمبلی کے حلقوں کے معاملات میں فواد حسن فواد کی رکاٹوں کے باعث ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا اس ناراضی کا سبب بنا۔ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل جن کا تعلق فیصل آباد سے تھا وزیراعظم ہاﺅس میں ملاقات کیلئے گئے اور تمام دن انتظار کے بعد جب وہ بڑبڑاتے ہوئے نکلے تو رات کو انہیں ایک سخت پیغام ملا۔ جس کے بعد قومی اسمبلی میں موجود راجپوت اراکین کے اکٹھے ہونے کی صورت پیدا ہوئی۔ سابق وزیرداخلہ چودھری نثار جن کا تعلق بھی اتفاق سے راجپوت فیملی سے ہے ، بھی آہستہ آہستہ کچن کیبنٹ سے رخصت ہو رہے تھے۔ راجپوت اور ان اراکین اسمبلی جن کے ذاتی انتخابی حلقے موجود ہیں اور جو کسی طاقتور سیاسی جماعت کے ٹکٹ کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر ٹکٹ انکی شدید مجبوری نہیں ہوا کرتا اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے خوش نہیں تھے۔ ان وجوہات کے باعث مختلف پس منظر اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کے مابین قربت بڑھتی گئی لیکن یہ لاوا پکتا رہا۔ یہاں تک کہ سابق وزیراعظم میاں نوا زشریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کو اسمبلی کے فلور پراراکین اسمبلی کے تحفظات کا اظہار کرنا پڑا جس کے بعد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اراکین اسمبلی کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے یہ ٹاسک کیپٹن (ر) صفدر کو سونپ دیا اور کسی حد تک شکایات کے سلسلے میں کمی آئی۔ اسی دوران ڈان لیکس اور پانامہ لیکس بھی سامنے آ گئے اور یوں شاہراہ اقتدار کی مختلف عمارتوں میں سانپ اور سیڑھی کے اس کھیل کا آغاز ہوا جو میاں نواز شریف کی سپریم کورٹ آف پاکستان سے نااہلی کے باوجود ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ وفاقی وزیر کی جانب سے آج کی پریس کانفرنس درحقیقت میاں نواز شریف کی مزاحمت کو روکنے کے لیے دباﺅ بڑھانے کا ایک بڑا قدم ہے۔ فیملی ملاقات کے بعد حمزہ شہباز کی گرشتہ دنوں کی گفتگو کے بعد مسلم لیگ (ن) کے حمایتی تجزیہ نگار یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کو مزاحمت ترک کرنے پر آمادہ کرلیا گیا ہے، تاہم احتساب عدالت میں پیشی کے بعد باہر آ کرمریم نواز شریف کی گفتگو سے یہ ثابت ہوگیا کہ ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا اور نوازشریف ابھی گومگو کی کیفیت کا شکر ہیں جس کے باعث مسلم لیگ ن کے اندر شامل وہ افراد جو ٹکراﺅ کے حق میں نہیں‘ انہیں سامنے لانے سے پیغام رسانی کا کام لیا جارہا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ پنجاب جو روایتی طور پر فاتح حکمران کے سامنے جھک جانے کا عادی ہے سے تعلق رکھنے والے الیکٹ ایبلز بھی کشمکش کا شکار ہیںکیونکہ اگر آئندہ عام انتخاب میں ان لوگوں نے جانا ہے تو وہ یہ تخمینہ لگانے میں حق بجانب ہیں کہ حالیہ پانامہ لیکس نے پنجاب میں مسلم لیگ ن کس قدر نقصان کیا ہے اور کیا مسلم لیگ ن کا ٹکٹ جتوانے کی گارنٹی بن سکتا ہے یا نہیں؟ یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ پنجاب کا انتقامی کنٹرول میاں شہبازشریف شریف کے پاس ہے اور سرکاری مشینری اگر کوئی مدد کر بھی سکتی ہے تو اس کے لئے شہبازشریف یا حمزہ شہبازشریف کا اشارہ ابرو درکار ہوگا جو خود ٹکراﺅ کی مخالفت کررہے ہیں۔ بہرحال مسلم لیگ ن کا سپورٹر کنفیوژ ہوگا جس کا ن لیگ کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ ریاض پیرزادہ کے قریبی حلقے 90 اراکین اسمبلی کے ساتھ رابطہ مکمل ہونے کی خبر سنا رہے ہیں تاہم دیگر حلقے ابھی 60 سے 80 کے درمیان ارکان پر ”کام“ کئے جانے کی بات کررہے ہیں۔ میاں نوازشریف کی وطن واپسی کی خبریں گرم ہیں۔ دریں اثنا مسلم لیگ ن کے صدر نوازشریف کا تین دہائیوں سے زیادہ سیاسی سفر اختتام پذیر اور پارٹی کا منظر نامہ تبدیل ہونے جارہا ہے۔ ذرائع کے نے بتایا نوازشریف ٹکراﺅ کی سیاست کے ذریعے جو اہداف حاصل کرنا چاہ رہے ہیں ان میں ایک تو این آر او حاصل کرنا ہے جو اب انہیں نہیں ملے گا اور دوسرا وہ 1999ءوالی پوزیشن کے خواب دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔ بااثر حلقوں کی رائے ہے اس بار 1990ءواسی غلطی نہ دہرائی جائے اور انہیں احتساب کے عمل سے گزارا جائے۔ نوازشریف غصے میں جن راہوں کو کھولنا چاہ رہے ہیں ان کی چابی ان کو ابھی تک نہیں مل رہی۔ نوازشریف نااہل کے بعد ریلی کی صورت میں لاہور آئے‘ الیکشن قوانین میں ترمیم کرکے پارٹی صدر بنے لیکن وہ جو حاصل کرنا چاہ رہے ہیں انہیں نہیں مل رہا۔ اس وقت شریف خاندان کے اندر اور پارٹی میں بھی سوچ کا اختلاف ہے۔ اگر نوازشریف نے معاملات کو سنجیدگی سے نہ لیا تو پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ اداروں کے ساتھ محاذآرائی کے نتیجے میں جمہوریت کو کوئی نقصان ہوا تو اس کی ذمہ داری بھی ان پر ہوگی کیونکہ محاذآرائی کے نتیجے میں معیشت مزید غیرمستحکم اور ملک مزید مشکلات کا شکار ہوگا۔ اس ساری صورتحال میں اداروں کے پاس مداخلت کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv