تازہ تر ین
zia shahid.jpg

نواز شریف صاحب! جوشیلے ورکروں کو ٹھنڈا کریں،انار کی نہ پھیلائیں:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عدلیہ، فوج اور انتظامیہ کے درمیان شدید قسم کی محاذ آرائی ہو رہی ہے۔ کبھی کبھار ابھر کر سامنے بھی آ جاتی ہے۔ دعا ہے اداروں میں ٹکراﺅ نہ بڑھے۔ آج عدالت پر چڑھائی ہوئی ہے۔ یہ پیغام ہے کہ سیاسی حامی، اداروں پر چڑھ کر کارروائی متاثر کر سکتے ہیں۔ آج نوازشریف کے حامیوں نے کہا کل پی ٹی آئی اور پرسوں پی پی پی کے کارکن ایسا کریں گے۔ معیشت پر بات کرنا اصل میں حکومت وقت کا کام ہوتا ہے۔ یہ آرمی کا کام نہیں ہے آرمی چیف نے اگر کوئی بات کہہ بھی دی ہے تو کوئی بڑی بات نہیں۔ احسن اقبال صاحب کے اس ردعمل کی ضرورت نہیں تھی۔ احتساب عدالت کے سامنے ہونے والا واقعہ افسوسناک ہے۔ وکلاءکے روپ میں نہ جانے کون لوگ تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت چیخ چیخ کر فوج کو آوازیں دے رہی ہے کہ جلدی آﺅ کہاں رہ گئے ہو۔ جو بگاڑ سکتے ہو جلدی آ کر بگاڑو۔ دوسری جانب فوجی بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم جمہوری نظام کو چلتا دیکھنا چاہتے ہیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عدالت کے لئے لاءاینڈ آرڈر کو قائم رکھے۔ کیس کسی کا بھی ہو۔ سول حکومت کا فرض بنتا ہے کہ عدالت کے اندر اور باہر تمام حالات کو نارمل رکھے۔ جس دن رینجرز کے افسر کی پٹائی کرنے کا پروگرام تھا۔ وہ وہاں نہیں آئے نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ یا رینجرز آنے سے انکار کر دے یا حکومت اسے باہر نکال دے کہ جاﺅ بھائی! تمہاری ضرورت نہیں۔ رینجرز آرمی کے انڈر ہوتی ہے۔ ان کی تربیت بھی آرمی جیسیہوتی ہے۔ احتساب عدالت کے باہر آج ایف سی کو بلایا گیا۔ اس کی تربیت تقریباً پولیس جیسی ہوتی ہے۔ اس کا لباس بھی شلوار قمیض ہوتی ہے۔ وہ پولیس کی طرح کچھ بھی نہیں کر پائے گی۔ احسن اقبال نے اسلام آباد کو دہشت گردوں اور بھوکے بھیڑیوں کے سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا ہے۔ جو اسلام آباد کا امن و امان خراب کرنا چاہتے ہیں۔ سلام آباد حساس علاقہ ہے۔ یہاں تمام ملکوں کی ایمبیسیاں ہیں۔ تقریباً تمام ہی اداروں کے ہیڈ آفسز ہیں۔ ایسے اہم اور نازک مقام پر کیا فوج اور رینجرز کو تعینات کیا جانا چاہئے؟ یا ایف سی اور پولیس جیسے اداروں کو کنٹرول دے کر ناخوش گوار واقعات کا انتظار کیا جانا چاہئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری، میاں شریف کے پاس ایک خطیب کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے شہباز شریف صاحب نے اپنی کمر پر اٹھا کر انہیں مناسک حج ادا کئے۔ ان کی بہت پرانی شناسائی ہے۔ دونوں ایک دوسروں کو اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ آج انہوں نے کہا ہے کہ نوازشریف کے اندر الطاف حسین چھپا ہوا ہے۔ تو یقینا انہوہں نے کہیں محسوس کیا ہو گا۔ اس کا جواب تو نوازشریف ہی دے سکتے ہیں۔ میں نوازشریف سے درخواست کروں گا کہ اپنے مشیروں کو کچھ تہذیب سکھائیں۔ انہیں روکیں اگر نہ روکا تو دوسری پارٹیاں بھی اسی طرح کے کام کر سکتی ہیں۔ ان کے پاس بھی کالے کوٹ ہیں۔ خدارا ملک کو انارکی کی طرف نہ لے کر جائیں اور ڈریں اس دن سے جب اسلام آباد میدان جنگ بن جائے۔ کیپٹن (ر) صفدر اگر فوج کو نہ چھوڑتے تو بہت آگے تک جاتے۔ جس رضوان اختر کو ن لیگ کے حلقوں میں پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ بعد میں انہیں چھٹی بھی کروا دی گئی۔ کیپٹن (ر) صفدر صاحب کے ایک زمانے میں ان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اتفاق ہے کہ آج وہ ان کی فیملی کے سامنے آ کھرے ہوئے۔ اسی پر ڈان لیگ کی بنیاد بنی تھی۔ آرمی کے جنرل حتیٰ کہ بریگیڈیئر لیول تک کوئی قادیانی نہیں ہے۔ کیپٹن صفدر صاحب کس کی زبان بول رہے ہیں۔ کنور دلشاد کوئی مولوی نہیں وہ بھی حیران ہیں کہ کیپٹن صاحب ایسی زبان کیوں استعمال کر رہے ہیں۔ ایسی باتیں تو دشمن ممالک کو سوٹ کرتی ہیں۔ جنہوں نے ہماری سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے۔ ان کے خلاف ایسی ہرزہ سرائی نہیں کرنی چاہئے۔ مولویوں کو خوش کرنا مقصود ہے تو یہ فورم نہیں ہے۔ احسن اقبال اچھے خاصے پڑھے لکھے انسان ہیں وہ سی پیک پر لگے ہوئے تھے نامعلوم کون ان کے خلاف سازش کر کے انہیں یہاں گھسیٹ لایا ہے۔ انہیں داخلہ کا کوئی تجربہ نہیں۔ چودھری نثار علی خان کو کریڈٹ جاتا ہے جس طرح انہوں نے مشکل ترین حالات میں گقت گزارا جب کراچی میں رینجرز کی تعیناتی میں وسعت کا معاملہ سامنے آیا تو اس وقت صوبائی حکومت اور فوج دکھائی دیتا تھا کہ ٹکواﺅ کی کیفیت بن جائے گی لیکن چودھری نثار نے بہت اچھے طریقے سے معاملات کنٹرول کر لئے، چودھری نثار، احسن اقبال سے کئی گنا اہل انسان تھے۔ جب کسی کے بُرے دن آتے ہیں وہ غلط فیصلے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ نوازشریف کی جانب سے اب غلط پر غلط فیصلے ہوتے جا رہے ہیں۔ اب معاملہ قادیانی تک رکنے والا نہیں اب یہ باتیں آئیں گی کہ فوج میں کتنے سنی ہیں کتنے شیعہ ہیں اور کتنے وہابی۔ پھر آئے گا کہ کس صوبے سے کتنے ہیں پھر کوٹہ سسٹم آ جائے گا۔ خدارا فوج کو بخش دیں۔ وہ بہت اہم ککام کر رہی ہے۔ بارڈر کی حفاظت ایک طرف دوسری جانب اندرون ملک آپریشن کا سلسلہ شروع ہے۔ سب سے پہلے میں وزیر قانونن پنجاب رانا ثناءاللہ سے اپنے ادارے کی طرف سے معافی چاہتا ہوں۔ ہوا یوں کہ شام کے اخبار میں ان کے بیان کو دوسرے انداز میں چھاپ دیا گیا، کچھ غلطی ان سے ہوئی کہ انہوں نے کہا وہ نماز بھی پڑھتے ہیں۔ روزے بھی رکھتے ہیں بس ذرا اختلاف ہے۔ ختم نبوت کے مسئلہ پر چھان بین پر معلوم ہوا کہ سرخی چھپی کہ قادیانی مسلمان ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں تھا۔ میں نے معذرت چاہتی۔ پروگرام میں وضاحت کی۔ اخبار میں وضاحت کی۔ خبریں میں کی۔ کیا اخبار میں کی۔ لیکن خود انہوں نے غیر محتاط زبان استعمال کی اس کی کیا ضرورت تھی۔ ہم قادیانی کی مقدس شام کو عبادت کی جگہ کہتے ہیں اسے مسجد نہیں کہتے۔ رانا صاحب کو چاہئے وہ خدارا کوئی وضاحت کر دیں۔ وہ ہر گز قادیانی نہیں ہیں نہ ان کے عقائد ایسے ہیں۔ میں خود ان کی طرف سے معذرت چاہتا ہوں رانا صاحب ”رفع شر“ کے طور پر اسے واپس لے لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تین مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ میں نے یہ نہیں کہا۔ لاہور میں تھڑا سیاست میں پہلے خوب بحث ہوتی ہے آخر میں یہ فیصلہ آتا ہے کہ سب چور ہیں۔ عمران خان کے لئے بھی مشہور ہو گیا ہے کہ وہ منی ٹریل نہیں دے سکے۔ میں انہیں جانتا ہوں وہ بددیانت تو نہیں ہے۔ لوگ باتیں تو کرتے ہیں۔ ذوالفقار بھٹو اور بینظیر کتو تو لوگ نہیں کہتے تھے لیکن آصف زرداری کے متعلق تو لوگ خوب بولتے ہیں۔ تجزیہ کار مکرم خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں رینجرز کو بڑے ٹیکنیکل انداز میں ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کی جگہ پر ایف سی لائی گئی ہے یہ وزارت داخلہ کے انڈر کام کرتی ہے۔ یہ صرف کے پی کے میں موجود ہے جو انگریزوں کے دور میں بنائی گئی تھی۔ اس میں بھرتی کا معیار اور تربیت کا کوئی خاص معیار ہی نہیں ہے۔ یہ گارڈز کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ رینجرز کو ہٹایا جانا ڈرامے کا پہلا سین تھا۔ آج اس کا دوسرا سین دکھایا گیا۔ ن لگ نے آج ججوں کو ہراساں کر دیا۔ اگلی پیشی پر رینجرز کو بلایا جائے گا۔ حکومت چاہے گی کہ 19 کو بھی رینجرز نہ آ سکے تا کہ میاں فیملی پر فرد جرم عائد نہ کی جا سکے۔ رینجرز کی تربیت اور بھرتی تقریباً فوج کے انداز پر ہوتی ہے۔ آرمی کی طرح ان کو سخت تربیت سے گزارا جاتا ہے۔ ان کے افسران زیادہ سے زیادہ 19 گریڈ تک جاتے ہیں اس کے مقابلے میں ایف سی ایک نیم پولیس کی طرح کا ادارہ ہے۔ ان کی تربیت بھی پولیس کی طرح ہوتی ہے۔ یہ موروثی قسم کی نوکری ہے۔ اب اسے بہتر بنایا جا رہا ہے لیکن ہر گز ہر گز اس کی تربیت فوج یا رینجرز کی طرح نہیں ہوتی۔ یہ ایک قسم کی سکیورٹی فورس ہے۔ عام طور پر یہ گارڈز کے کام کرتی ہے۔ ان کے پاس جدید ہتھیار بھی نہیں ہوتے۔ چیف آف آرمی سٹاف نے معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر بات کی ہے۔ آج ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ بری نہیں تو اچھی بھی نہیں۔ فوج کے ترجمان کی بات انتہائی محتاط ہوتی ہے اور وہ باقاعدہ اجازت لے کر اور بہت احتیاط کے ساتھ بیان دیتے ہیں۔ یقینا ہمارے عسکری اداروں کو معیشت کی زبوں حالی نظر آ رہی ہے وہ اس پرتشویش کا شکار ہے قومی سلامتی اور معیشت دونوں پر انہوں نے بات کی ہے۔

\



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv