تازہ تر ین
Zia Shahid ky Sath

ڈاکٹر قدیر نے ملک کو پابندیوں سے بچانے کیلئے سارا الزام اپنے سر لے لیا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی پریس کانفرنس کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ نجی چینل اپنی خبر کی تردید کرے اور ثابت کرے کہ اس کی خبر درست ہے ورنہ وزیراعلیٰ نے ایکشن کا اشارہ کیا ہے۔ میاں شہباز شریف اکثر جذباتی تقریریں کر جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے پی پی پی کے لیڈروں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی تھی۔ تاہم پی پی پی کی طرف سے وضاحت آئی تھی کہ انہوں نے معذرت کر لی ہے۔ کچھ عرصہ بعد جب آصف زرداری ان سے ملنے آئے تو میاں نواز شریف خود انہیں ہیلی پیڈ پر لینے گئے اور انہیں خوش آمدید کیااور پرتکلف دعوت دی۔ شہباز شریف خود تو اس دعوت میں شریک نہیں ہوئے۔ انہوں نے دعوت کی مخالفت بھی نہیں کی۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ 48 گھنٹوں کے بعد شاید نجی ٹی وی کے خلاف کیس کریں گے۔ میاں صاحب ایک طاقتور وزیراعلیٰ ہیں کسی کی ہمت نہیں کہ ان کے گریبان کو ہاتھ ڈالے۔ شہباز شریف نے عمران خان کے خلاف ہرجانے کا کیس کیا لیکن کسی عدالت کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔ شہباز شر یف کی کل کی کہانی میں پونے دو کروڑ ڈالر کا ذکر تھا۔ اب تو اربوں سے کم میں کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ شہباز شریف نے ہتک عزت کے قانون کے متعلق کہا ہے کہ یہ کمزور ہے ان کے اقتدار کو تقریباً 9سال گزر چکے ہیں ان کے بڑے بھائی وزیراعظم بھی تھے اور وہ تقریباً ڈپٹی وزیراعظم کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اتنی طاقت کے بعد وہ اس قانون کو مضبوط بنا لیتے۔ یہ انہی کا فرض تھا قانون سازی کر کے اسے تبدیل یا ترمیم کردیتے۔ میاں نواز شریف لندن روانہ ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں ان کی حکومت ہے۔ یہ ان کا ملک ہے۔ وہ جب چاہیں گے واپس آ جائیں گے۔ جتنے الزام ان پر لگے اگر اس کا دس فیصد بھی کسی پر لگتا تو وہ اندر ہو جاتا۔ شیخ رشید بارہا چیختے رہے کہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا جائے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر پر جو الزام لگایا کہ ایران کو انہوں نے مشینری بیچی ہے۔ اس میں یورینیم لگا ہوا تھا جو کہوٹہ کے ایٹمی پلانٹ سے افزدہ تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مجھے فون کیا اور بتایا میں دو تین سینئر صحافیوں سے بات چیت کرنا چاہتا ہوں۔ صبح گیارہ بجے ان کے گھر پہنچا۔ گھر کے باہر بہت پہرہ تھا میں اندر چلا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے میرے سامنے دو اور نام رکھے ایک عارف نظامی اور ایک کراچی کے دوست اور کہا کہ میں ان کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے بارے بتانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا! اگر کوئی چیز ملک سے باہر گئی ہے تو اس کی ذمہ داری مجھ اکیلے پر نہیں ہے بلکہ اس میں بہتے سے لوگ بھی شامل ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ ان کے نام بتا دیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر نام بتا دئیے تو زلزلہ آ جائے گا اور میں نے جو کچھ کہنا چاہتا تھا۔ ایک ٹیپ میں ریکارڈ کر کے باہر بھیج دیا ہے اور وہ لندن میں محفوظ ہے۔ اگر مجھے زیادہ تنگ کیا گیا تو میں وہاں سے ٹیپ آن کروا دونگا۔ جس سے پوری دنیا میں ہلچل مچ جائے گی کہ میرے ساتھ کون کون لوگ شامل تھے۔ انہوں نے دوسری دفعہ کہا اگر کوئی چیز ملک سے باہر گئی ہے تو اس میں اور بہت سے لوگ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس لئے آپ لوگوں کو بلایا ہے کہ شاید مجھے بیان دینے سے ہی روک دیا جائے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ کا کیا مشورہ ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے تو نیوکلیئر یا اس کی مشینوں کے بارے کچھ پتا نہیں۔ میں کیا مشورہ دے سکتا ہوں۔ مجھے تو اتنا پتا چلا کہ جو مشینری آپ نے باہر بھیجی اس کا ملک کو نقصان ہو سکتا ہے۔ مشورہ دیا کہ آپ کے اور ملک کے درمیان ہونے والی چپقلش سے ملک کو زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہم نے وہاں سے رخصت لی۔ اگلے ہی دن ان سے ملاقات کرنے پر سب کےلئے پابندی لگا دی۔ جنرل قدوائی کہوٹہ اور ان تمام معاملات کے انچارج تھے۔ میں ان سے پہلے بھی مل چکا تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر قدیر صاحب سے کہا کہ اس معاملے پر ملک پر بڑی پابندیاں کی جائیں گی۔ لہٰذا ڈاکٹر عبدالقدیر نے تمام الزامات اپنے اوپر لے لئے۔ اس پر ڈاکٹر قدر نے بیان دیا کہ میں ملک سے قوم سے اس بات پر معافی چاہتا ہوں ڈاکٹر قدیر کے بیان کے بعد مشرف اور دیگر جرنیل سب چھوٹ گئے اور وہ اکیلے پھنس گئے۔ انہوں نے اسٹیٹ کو بچانے کےلئے الزامات اپنے سر لے لئے۔ آج یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے تمام سیاستدان ایک صفحے پر ہیں پارلیمنٹ میں اس کا اظہار بھی خوش آئند ہے۔ سپیکر صاحب نے خود شیریں مزاری کے بارے کہا کہ انکی بات حکومتی رکن سے ملتی جلتی ہے۔ یہ ہم سب کےلئے خوشی کا باعث ہے۔ کیونکہ پاکستان ہم سب کا وطن ہے۔ اور اس کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ دفاعی تجزیہ کار عبداللہ حمید گل نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کے متعلق ایسے موقع پر مشرف کا ردعمل آنا معنی خیز دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے اس وقت معافی منگوائی گئی تھی جب ا س خطے میں امریکہ کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ اور وہ نیوکلیئر نان پرولیری فریشن کی طرف جا رہا تھا۔ 9/11 سے پہلے چیف آف آرمی سٹاف کے پاس نیوکلیئر کنٹرول ہوتا تھا۔ مشرف کے معاملات اس تک قابل تفتیش تھے کہ اس کی وجہ سے آرمی کے اندر آرمی سٹرٹیجک فورس کا قیام عمل میں آیا ا ور نیوکلیئر کے معاملات ان کے اور کچھ دیگر افراد کے حوالے کر دئیے گئے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ مشرف جو پاکستان سے باہر آرام سے رہ رہا ہے اس کی کیا بنیادی وجوہات ہیں۔ خاص طور پر اس موقع پر جب دنیا پاکستان کو ڈی نیوکلیئرائز کرنا چاہتی ہے۔ اور پاکستان کے لنک کو چین اور دوست ممالک سے تڑوانا چاہتے ہیں۔ ایسے موقع پر ڈاکٹر قدیر کے بارے بات کرنا ایسے ہے جیسے ”آبیل مجھے مار“ صدر اور چیف آف آرمی سٹاف رہنے والے شخص سے ا یسے غیر ذمہ دارانہ بیان کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ دوسری جانب فوجی ترجمان ان کے ایک بیان پر ردعمل دے چکے ہیں کہ پرویز مشرف کا بیان ان کی ذاتی رائے ہے۔ اصل اہمیت آرمی چیف میجر جاوید باجوہ ہی کی ہوگی۔ مشرف کے متعلق جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے بڑے سخت الفاظ میں ردعمل دئیے تھے۔ اس کے بعد مشرف آئے اور ملک میں اپنے مقدمات میں پیش ہوئے بغیر ہی دوبارہ باہر بھاگ گئے۔ ڈاکٹر قدیر پاکستانی عوام کے دلوں میں بستے ہیں۔ وہ پاکستان کے اندر موجود ہیں۔ دوسری جانب مشرف ملک سے بھاگ چکا ہے۔ تکلیف کا بہانہ بنا کرگئے میڈیا پر ناچتے ر ہے۔ پوری دنیا نے انہیں دیکھا۔ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) غضنفر علی نے کہا ڈاکٹر صاحب پر جو الزام لگایا ہے ان پر وہ الزام بنتا ہی نہیں۔ بالخصوص ایسی حکومت کی طرف سے جس نے جاپان میں تباہی مچا دی تھی۔ امریکہ میں ایٹم بم جرمن سیاستدان نے ڈی ویلپ کیا تھا۔ جسے دوسری جنگ عظیم کے وقت اغوا کر کے ا مریکہ پہنچایا گیا تھا۔ امریکہ نے کسی کا پروگرام چوری کر کے اپنا ایٹم بم بنایا اسی کی تحقیق کر لینی چاہیے۔ ڈاکٹر قدیر اس وقت یونیورسٹی میں جو یہ اپنی ٹیکنالوجی پڑھا رہے تھے ذوالفقار علی بھٹونے انہیں بلایا،۔ ان کی ریسرچ پر معلومات لیں۔ مشرف نے امریکہ کے سامھنے کیوں گھٹنے ٹیک دیئے۔ امریکہ کون ہوتا تھا ڈاکٹر قدیر کو لے جانے والا۔ اس قسم کے بیان مشرف کو زیب نہیں دیتے۔ اپنی جان چھڑوانے کےلئے سستی شہرت کےلئے ایسے بیانات دینا انتہائی غلیظ حرکت ہے۔ ڈاکٹر قدیر کیوں معافی مانگیں انہوں نے ملک اور قوم کی خدمت کی ہے۔ جتنا کام اور کردار ڈاکٹر قدیر نے ادا کیا ہے اس کی تعریف ممکن نہیں۔ حتی کہ کہوٹہ کے مقام کو انہوں نے چنا اس کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا مکل اور قوم پر بڑا احسان ہے۔ جو ان پر الزام لگا کے وہ خود قصور وار ہے۔ مشرف ڈکٹیٹر تھا اس نے امریکہ کے سامنے گردن جھکا دی۔ نارتھ کوریا کس قدر دھماکے کر رہا ہے۔ وہ امریکہ کے آگے نہیں جھکا۔ ہم نے اپنی سکیورٹی کےلئے اگر نیوکلیئر سسٹم ڈویلپ کیا ہے تو کسی کو کیا تکلیف۔ ڈاکٹر صاحب اعلیٰ ظرف کے انسان ہیں جنہوں نے مشرف کی اتنی زیادتیاں برداشت کیں۔ڈاکٹر قدیر ہمارے ہیرو ہیں وہ کسی کے کہنے پر کیوں معافی مانگیں گے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv