تازہ تر ین
supreme-court-of-pakistan

آزادی صحافت اہم ، سپریم کورٹ میدان میں آگئی

اسلام آباد (صباح نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے جنگ گروپ کے مالکان میر شکیل الرحمان، میر جاوید الرحمان اور رپورٹر احمد نورانی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت 22 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے انہیں مزید جواب جمع کرانے کی مہلت دے دی ہے ،منگل کوجسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ کے روبروغلط خبر شائع کرنے پرجنگ گروپ کے مالکان میر شکیل الرحمان، میر جاوید الرحمان اور رپورٹر احمد نورانی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے موقع پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کون کون سے فریقین عدالت میں موجود ہیں اور کس کس نے جواب داخل کروا دیا ہے جس پر وکیل چوہدری ارشد نے کہا کہ تینوں فریقین عدالت میں موجود ہیں اور تینوں کی جانب سے جواب داخل کروا دئیے ہیں تاہم مزید دستاویزات کی ضرورت ہوئی تو دیں گے۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ جواب دیکھ لیا ہے تاہم آئندہ آپ کی درخواست پر دلائل ہوں گے جس کے بعد عدالت نے میر شکیل الرحمان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت22اگست تک ملتوی کردی گئی۔سماعت ملتوی ہونے کے بعدجنگ گروپ کے پرنٹر و پبلشر میر شکیل الرحمان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ اپنے ادارے کی جانب سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں، ان کا کہنا تھا کہ عدالتی آبزرویشن میںکہا گیا کسی کے ایما پر یہ خبریں شائع ہو رہی ہیں، اشتہارات کی تفصیل عدالت نے منگوائی جس پر ہم سب کو بہت تکلیف ہوئی،عدالت نے صرف تین حکومتوں کے اشتہار منگوائے جب کہ سب سے زیادہ اشتہارات ہمیں خیبر پختونخوا میںعمران خان کی حکومت نے دئیے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایشو یہ ہے کہ جان بوجھ کر غلط رپورٹنگ کی گئی، غلط خبریں اور غلط عدالتی احکامات چھاپے گئے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ غلط خبریں شائع کرنے کا مقصد عوام میں کنفیوژن پیدا کرنا تھا، جان بوجھ کر افواہیں پھیلانے، عدالت اور جے آئی ٹی کو ڈس کریڈٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ میر شکیل صاحب، آ پ سے عرض کر رہے ہیں وکیل کے ذریعے بحث کریں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ہم آپ سے بحث نہیں کر رہے۔میر شکیل الرحمان نے کہا کہ ان کے اخبار کا تمام عملہ کہتا ہے کہ ہماری خبریں درست ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم نے ایسی خبریں دیکھی ہیں جو غلط ہیں جس میں عدالت کو غلط طور پر پیش کیا گیا، میر شکیل کا کہنا تھا کہ مجھے بتائیں کون سی خبر غلط ہے تاکہ اپنے عملے کی سرزنش کر سکوں۔جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ آپ نے عدالت آنے سے پہلے چھاپی جو باﺅنس ہوئی، ہمیں ہر بات کہنے پر مجبور نہ کریں، لاہور ہائی کورٹ کے بارے غلط خبر چھاپ کر سارا دن معافی مانگتے رہے تھے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایک غلط خبر مانی ہے، مزید بھی مانیں گے، آپ کو جو کہنا ہے اپنے جواب میں لکھیں جس پر میر شکیل الرحمان نے کہا کہ عدالت آئی ایس آئی اور واٹس ایپ خبروں سے متعلق بھی نوٹس لے، ایک خبر پر نوٹس لیا ہے لہذا باقی پر بھی نوٹس لیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ فکر نہ کریں بات ہو گی تو سب پر ہوگی، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ اونچ نیچ پر اس لیے خاموش ہوتے ہیں کہ آزادی صحافت مقدم ہے، برداشت کرتے ہیں کیونکہ صحافت کو خاموش نہیں کرانا چاہتے۔میر شکیل الرحمان نے کہا کہ آپ جو ریمارکس دیتے ہیں وہ آرڈر میں نہیں ہوتے جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں تو آج کے ریمارکس آرڈر میں ڈال دیں گے تاہم بعد میں ریمارکس نکالنے کے لیے درخواست نہ دینا جب کہ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آزادی صحافت مقدم ہے لیکن کیچڑ اچھالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ علاوہ ازیں بڑے میڈیا گروپ کے مالک عدالت میں حاضری کے بعد باہر آ کر آپے سے باہر، معزز جج کے ریمارکس کو بیہودہ قرار دیا۔ جج صاحب کےخلاف مقدمہ درج کرانے کی دھمکی دی۔ نجی ٹی وی کے مطابق میڈیا گروپ کے مالک عدالت سے باہر آئے تو جوش خطابت میں آپے سے باہر ہوگئے۔ بڑے بھائی اور وکیل کے روکنے کے باوجود زبان پر قابو نہ پایا اور معزز جج کےخلاف بیہودہ گفتگو اور کیس درج کرانے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ صحافی نے جج صاحب کا نام لیکر سوال پوچھا جس پر بیہودہ ردعمل دیا گیا۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون نے اس معاملہ پر کہا کہ ججز کو دھمکی دینا توہین عدالت ہے اس پر فوری ایکشن ہونا چاہیے۔ میڈیا گروپ کے مالک کےخلاف توہین عدالت کا کیس بنتا ہے کیونکہ انہوں نے جج صاحب کے بارے میں انتہائی توہین آمیز رویہ اختیار کیا جس کی سزا ملنی چاہیے۔ سابق اٹارنی جنرل شاہ خاور نے کہا کہ میڈیا گروپ کے مالک نے غیرقانونی، غیر آئینی اور غیر مناسب باتیں کی ہیں جن پر عدالت کو فوری ایکشن لینا چاہیے اس طرح کے جملے بولنا اور دھمکیاں دینا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ سیکرٹری سپریم کورٹ بار آفتاب باجوہ نے کہا کہ میڈیا گروپ مالک نے عدالت سے باہر جس طرح کی گفتگو کی وہ توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔ ہم انہیں متنبہ کرتے ہیں کہ ایسا رویہ اختیار نہ کریں ورنہ بنچ اور بار ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں، آئندہ ایسی حرکت کی تو ہمیں آپ کےخلاف میدان میں آنا پڑے گا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv