تازہ تر ین

اہم سیاسی پارٹی میں ضابطہ اصول ختم،پیسہ کمانا مقصد خوفناک انکشاف

کراچی (خصوصی رپورٹ)پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت 27دسمبر 2017ءکو کیا بدلی سارے اصول، ساری پالیسیاں ، ساری حکمت عملی ، سارے حالات ہی تبدیل ہوگئے۔ جو اصول ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے طے کیے گئے تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی ان کو برقرار رکھا مگر آصف علی زرداری نے ان سب کو ملیا میٹ کردیا اورتمام ضابطے اصول ، اخلاقیات کا طمطراق سے جنازہ نکال دیا اور اب ایک ایسی پارٹی بن کر ابھری ہے جس کاکوئی اصول، پالیسی، اخلاقیات نہیں ہے۔ یہ ایک پبلک لمیٹڈبن کر رہ گئی ہے اور پیسہ اب پارٹی کی بنیاد بن گیاہے۔ جب آصف علی زرداری نے میثاق جمہوریت کو اپنے پیروں سے رونڈ ڈالا اور ازلی دشمن گجرات کے چودھریوں شجاعت حسین اور پرویزالٰہی سے مفاہمت کے نام پر جو اتحاد کیا،اس دن پرانی پیپلزپارٹی کودفن کرکے ایک نئی پیپلزپارٹی کو جنم دیاگیا،جس کا یہ اصول تھا کہ سب کچھ پیسہ ہے اور دشمن دوست کا تصور ختم ہوگیا اور سب کو اپنی پارٹی میں شامل کرو، وفاداری کاایک ہی مطلب ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کا وفادار ہو، انورمجید کو مقدس گائے سمجھائے جائے اور رشوت کی پوری رقم اپنی جیب میں ڈالنے کے بجائے مل بانٹ کر کھانی چاہیے اور سب کو راضی رکھا جائے۔ عجیب تیری دوستی عجب تیرا کام یزید سے بھی دوستی، حسین کو بھی سلام ہاشمی نے کہا تھا کہ آصف علی زرداری کی سیاست کو سمجھنے کیلئے دو مرتبہ پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت ہے۔اگر آج صیاءالحق ، جسٹس مولوی مشتاق ، چودھری ظہورالٰہی، جام صادق علی جیسے پی پی مخالف زندہ ہوتے تو آصف علی زرداری مفاہمت کے نام پر ان کو پارٹی میں شامل کرلیتے۔ جام مددعلی جیسے لوگوں کو پی پی میں شامل کرکے پی پی پی کے اصولوں پر دھوم سے جنازہ نکال دیاگیا۔ لیکن پارٹی میں ایک روایت ڈالی گئی جس نے بھی ملکی سلامتی کے اداروں سے جھگڑا کیا یا پھر وفاقی حکومت سے تنازعہ کھڑا کیا تو آصف علی زرداری نے اس کو اتنی بڑی اہمیت دی، جب بطور وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے تندوتیز لہجے میں خط و کتابت کی تو اسحاق ڈار نے تنگ ہوکر کہا کہ مراد علی شاہ کو خط و کتابت کا زیادہ شوق ہے اور پارٹی قیادت ان کو فی الحال وزیراعلیٰ نہیں بنائے گی بس اس بات کو آصف علی زرداری نے پکڑلیا اور آناً فاناً قائم علی شاہ سے استعفیٰ لے کر سید مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ سندھ بنادیا پھر گزشتہ سال جب سندھ کے وزیرداخلہ سہیل انورسیال کی ہدایت پر ان کے بھائی طارق سیال نے رینجرز ، نیب اور حساس اداروں کے اہلکاروں کو یرغمال بناکر لاڑکانہ کے ٹھیکیدار اسد کھرل کو تھانہ سے زبردستی چھڑوالیا تو اس وقت سہیل انورسیال آصف علی زرداری اور فریال کی آنکھ کا تارا بن گیا، طاقت ور اداروں کی شدید مخالفت پر سہیل انورسیال کو نئی کابینہ میں وزیر زراعت بنایاگیا لیکن پھر چھ ماہ بھی نہیں گزرے ان کو دوبار ہ وزیر داخلہ بنادیاگیا ہے۔ اس مرتبہ جس مقصد کے لیے سہیل انورسیال کو وزیر داخلہ بنایاگیا ہے وہ واضح ہے، ایک تو اہم ترین مقصد یہ ہے کہ موجودہ آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کے ساتھ لڑائی لڑنا ہے اور دوسرا مقصد عام انتخابات سے قبل سیاسی مخالفین کو پولیس کے ذریعے کچلنا ہے اور تیسرا مقصد پارٹی کے اندر ناراض رہنماﺅں کے خلاف ثبوت تیار کرنا اور ان کو سبق سکھانا ہے کیونکہ جس طرح سہیل انورسیال نے ضلع لاڑکانہ میں 90ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں پر لیپا پوتی کرکے ساری رقم فریال تالپور کے سامنے رکھ دی ہے اور اسد کھرل کو ٹھیکے دلوا کر ساری حکمت عملی بنائی اور بعدازاں اسد کھرل کو زبردستی چھڑوالیا، اس عمل سے انہوں نے آصف علی زرداری اور فریال تالپورکے دل جیت لیے ہیں اور اب سہیل انورسیال کی اہمیت سیدمراد علی شاہ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ اس لیے سوچ سمجھ کر ان کو دوبارہ وزیرداخلہ بنایاگیا ہے تاکہ پہلے راﺅنڈ میں وہ آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ سے لڑائی شروع کریں، پہلے مرحلے میں وہ پولیس کے اندرتبادلوں و تقرریوں پر پابندی عائد کریں گے اور پھر وہ پورے صوبے میں ڈی ایس پی سے لیکر ایڈیشنل آئی جی سطح تک کے افسران اپنی مرضی سے رکھیں گے، پھر امن و امان کے اجلاس خود منعقد کریں گے، سکیورٹی پلان بھی خود منظور کریں گے اور آئی جی سندھ پولیس کا عہدہ صرف رسمی رہ جائے گا۔ تمام اختیارات وزیرداخلہ سہیل انور سیال ہی استعمال کریں گے اور پھر آئی جی سندھ پولیس اگر کچھ کرنا بھی چاہیں گے تو کرنہیں سکیں گے۔ خاص طور پر اب باقی رہ جانے والی 13 ہزار نئے پولیس اہلکاروںکی بھرتی کی ذمہ داری بھی سہیل انور سیال ادا کریں گے، کیونکہ پچھلی مرتبہ بارہ ہزارنئے پولیس اہلکاروں کی میرٹ پر بھرتی کرنے سے انور مجید کے خواب چکناچور ہوگئے کیونکہ انور مجید نے فی اہلکار پانچ لاکھ روپے لینے کے حساب سے چھ ارب روپے کمانے کا ٹارگٹ رکھا تھا، لیکن آئی جی سندھ پولیس نے بھرتی کرنے والی کمیٹی میں فوج کا میجر شامل کرکے انورمجید کا خواب پورا نہ ہونے دیا۔ یوں میرٹ پر غریبوں کے بچے بھرتی ہو گئے اور انور مجید چھ ارب روپے نہ کما سکے۔ اور اب باقی یرہ ہزار اہلکاروں سے ساڑھے چھ ارب روپے کمانے کے لیے سہیل انور سیال کو آگے لایا گیا ہے کیونکہ وہ آصف زرداری اور فریال تالپور کا قابل اعتماد ساتھی ہے اور وہ قیادت کے حکم پر ہر کام کرکے دکھائیں گے۔ اس لیے طاقتور حلقوں کی مخالفت کے باوجود انہیں دوبارہ وزیرداخلہ بنادیا گیا ہے۔ سہیل انور سیال کی دوسری ذمہ داری یہ ہے صوبے میںجو سیاسی مخالفین ہیں ان کو پولیس کے ذریعے سبق سکھائیں تاکہ وہ یا تو پیپلزپارٹی میں شامل ہو جائیں یا پھر میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں، یوں آسانی سے الیکشن جیتا جائے اور مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں ہو اور ان کا تیسرا کام یہ ہے کہ وہ پارٹی کے اندر ناراض رہنماﺅںکی نشاندہی کریں، پہلے ان کو سمجھائیں کہ وہ پارٹی سے الگ نہ ہوں اگر وہ مان جائیں تو ٹھیک ہے اگر نہ مانیں تو پھر ان کے خلاف پولیس کی طاقت استعمال کریں، ان کو پہلے تو محکمہ جیل خانہ جات دیا گیا تھا۔ اب محکمہ داخلہ بھی دے دیا گیا ہے تاکہ ایک طرف وہ کسی پر مقدمہ بنا کر جیل بھیجیں اور جب وہ جیل جائیں تو ان پ جیل میں سختیاں کرائیں یوں ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی ذمہ داری سہیل انور سیال کو دے دی گئی ہے۔ کیونکہ وہ سب سے زیادہ وفادار ہیں۔ سہیل انور سیال نے اپنے ہی حلقہ انتخاب میں اپنے قریبی رشتہ دار اور مسلم لیگ (ق) سندھ کے جنرل سیکرٹری بابو اور سرور سیال کو ضمنی الیکشن میں اپنے حق میں دستبردار کرانے کے لیے فریال تالپور کو ساتھ لیکرجا کر ان کے گھر پہنچ گئے جس پر بابو سرور سیال نے گھر آنے والوں کو عزت دیتے ہوئے دستبردار ہونے کا اعلان کیا لیکن جب انور سیال وزیرداخلہ بنے تو سب سے پہلے انہوں نے بابو سرور سیال کے خلاف مقدمات کیے ان کے گھر پر حملے کرائے اور حملہ کے نتیجے میں بابو سرور سیال کا بھانجا جاں بحق ہوا اور اب دوسری مرتبہ وہ وزیرداخلہ بنے ہیں اس مرتبہ بھی وہ پرانے حساب چکائیں گے اور باقی رہ جانے والا انتقام پورا کریں گے۔ سہیل انور سیال صبح ہوتے ہی سب سے پہلے فریال تالپور کے ہاں حاضری دیتے ہیں۔ وزیرداخلہ بن جانے کے بعد سہیل انور سیال وہی حاضی برقرار رکھے گے اور جو حکم فریال تالپور دیںگی اس پر عمل کریںگے۔ انور مجید جیسے بندوں کی عید ہوگئی کیونکہ اب تو گنے کے کاشتکاروں اور شوگر ملز کے مالکان کو گرفتار کرنا آسان ہوگا اور پھر اومنی گروپ کے دفاتر اور انور مجید کے گھر سے اسلحہ ملنے اور نثار مورائی کے گھر کے قریب سے اسلحہ برآمد کرنے کے کیس میں وہی تفتیش ہوگی جو انور مجید چاہیں گے۔ یوں انور مجید کو کلین چٹ مل جائے گی۔ سب سے اہم ایشو رینجرز کا ہوگا۔ جس کے ساتھ تنازعات کے لیے سہیل انور سیال کو موزوں سمجھا جا رہا ہے کیونکہ رینجرز کے اختیارات اور مدت میں توسیع کے معاملہ پر حکومت سندھ نے ہر بار جھگڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پیپلزپارٹی کی قیادت سمجھتی ہے کہ ان تمام معاملات پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہفٹ نہیں ہیں اس کام کیلئے سہیل انور سیال ہی بہتر ہیں اس لیے ان کو وزیرداخلہ بنایا گیا ہے۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv