تازہ تر ین
ziazia shahid

”بھارت ہر قیمت پر تجارتی راہداری حاصل کرکے افغانستان تک پہنچنا چاہتا ہے“ نامور تجزیہ کار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرائے بغیر فوجی و رینجرز ایکشن بے کار ہیں۔ فوجی عدالتوں میں توسیع وقت کی ضرورت اور سول حکومت کی ناکامی ہے۔ فوجی تنصیبات وجوانوں پر حملہ کرنے والوں کو پکڑنا سول اداروں و حکومت کے لئے مشکل ہوتا ہے اس لئے فوج خود ان کو پکڑتی ہے اور وہی فوجی عدالتوں میں پیش کئے جاتے ہیں۔ ملٹری کورٹس پر مخالفت کرنے والے صرف ریکارڈ بنانے کے لئے یہ سب کر رہے ہیں۔ اچکزئی اکثر ووٹ فروخت کرتے رہے ہیں اگر اب نہیں کرنا چاہتے تو یہ ان کی مرصی ہے۔ مرحوم اکبر بگٹی اچکزئی کے لیڈر تھے۔ انہوں نے 15 ویں ترمیم کے بعد قومی اسمبلی میں ان کے جتنے ووٹ تھے ان کے 4 کروڑ روپے مانگے۔ ہم نے خبر چھاپ دی جس کے نتتیجے میں مجھ پر اور مجید نظامی پر کیس ہو گیا۔ میں نے ملاقات کے دوران ان سے کہا کہ ہم آپ کی اتنی خبریں شائع کرتے رہتے ہیں، آپ نے ہم پر کیس کر دیا۔ جواب میں انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہمارا بلوچوں کا ایک ہی مسئلہ ہے، غربت و پریشانی بہت پیسہ چاہئے۔ وہ اچکزئی کے برے لیڈر ہیں۔ آج بھی بلوچستان میں ان کے قتل پر قوم پرست بہت گرم ہیں۔ اکبر بگٹی نے کہا کہ ہم درخواستیں دیتے رہتے ہیں لیکن حکومت کوئی پیسہ نہیں دیتی، جب ان کو ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے تو ہم پیسہ مانگتے ہیں، میں نے زیادہ مانگے تھے لیکن انہوں نے 4 کروڑ دیئے تو ہم نے ووٹ دے دیا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ایوب خان دور سے آج تک ہر آنے والی صوبائی حکومت نے بلوچسشتان کو محروم صوبہ قرار دیتے ہوئے خصوصی گرانٹ دینے کا مطالبہ کیا لیکن وہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ 70 سے 80 فیصد علاقہ ایف سی کے پاس ہے جس کا سربراہ فوج سے ہوتا ہے۔ کسی حکومت نے بلوچستان میں ترقیاتی کام نہیں کئے، وہاں سڑکیں و تعلیمی اداروں سمیت تمام ترقیاتی کام ایف سی نے کئے۔ وہاں پر سڑک پر بورڈ نصب ہے کہ اس کی تعمیر کے دوران اتنے فوجی جوان شہید ہوئے۔ اچکزئی صاحب سے کہوں گا اگر حکومت آپ کی بات نہیں مانتی تو استعفیٰ دے دیں۔ آپ اپنے بھائی کی گورنری اور عزیز، رشتے داروں کو قومی اسمبلی میں بیٹھا کر بڑے بڑے عہدے دلواتے ہیں، آپ تو پہلے سے ہی مسلسل اپنی حیثیت کو فروخت کر رہے ہیں۔ جتنا آپ نے حکومتی پارٹی کے پاس اپنے ووٹوں کو فروخت کیا کسی نے نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت پانی کے مسئلے پر مذاکرات کیلئے بیرونی اور پاکستان کی جانب سے تجارتی راستہ نہ کھولنے کے دباﺅ کی وجہ سے راضی ہوا۔ اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث کے ساتھ ساتھ متاثرہ صوبوں کو بھی آواز اٹھانی چاہئے کیونکہ اب پانی، زراعت و خوراک کی کوئی وفاقی وزارت نہیں ہے۔ شکایات و خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیئے موقف پر مسلسل جنگ جاری رہنی چاہئے۔ پاکستان ہمیشہ شور مچاتا رہا کہ پانی و کشمیر 2 بنیادی ایشو ہیں جبکہ بھارت صرف ایک تجارتی راستہ کھولنے کی بات کرتا رہا تا کہ وہ وسط ایشیا جا سکے اور افغانستان تک اس کی رسائی آسان ہو۔ عالمی رائے عامہ نے بھارت پر بار بار دباﺅ ڈالا کہ وہ پاکستان سے مذاکرات کرے، تیسری جنگ عظیم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پاک بھارت دونوں ایٹمی طاقت ہیں لیکن کبھی ان کو چھوا نہیں یہ مفروضہ ہیں۔ لیکن پاک بھارت جب بھی جنگ ہوئی بڑے پیمانے پر تباہی لوٹے گی۔ ہم وسائل، رقبہ و آبادی میں کم سہی لیکن ہماری میزائل ٹیکنالوجی ان سے آگے ہے، لاہور میں بیٹھ کر بھارت کے بڑے بڑے شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ انڈیا نے جس میزائل کا بھی تجربہ کیا، خود تسلیم کیا کہ یہ پاکستان کے میزائل کے مقابلے کا نہیں۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملہ کرنے دینے جیسے بیانات برسوں سے سن رہا ہوں۔ اگر وہ حملہ کر سکتا ہے تو کر کے دکھائے، ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، ہمارا بھی نیو کلیئر سسٹم ہے۔ نیو کلیئر سسٹم کوئی بسکٹ کی مانند نہیں کہ کوئی بھی لے بھاگے۔ امریکہ و اسرائیل بھی پہلے حملہ کرنے کا شور مچاتے رہے ہیں، بھارت بھی وقتاً فوقتاً ایسی گیدڑ دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔ غلام اسحاق خان جب تک صدر مملکت تھے وہ منتخب وزیراعظم پر بھی اعتماد نہیں کرتے تھے اور ایٹمی اثاثے کی حفاظت کرنا خوب جانتے تھے جس کی وجہ سے فوج بھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عبدالولی خان کے والد کی وفات پر جب راجیو گاندھی پاکستان آئے تھے، وہ اسلام آباد گئے تو انہوں نے کشمیر ہاﺅس کا بورڈ اتار دیا تھا۔ پی پی کو سلام، صرف انہی کی وزیراعظم ہیں محترمہ بے نظییر بھٹو جو الیکشن جیت کر آئیں تھیں اور کہوٹہ پلانٹ کا دورہ کرنے کیلئے مسلسل کوششیں کرتی رہیں لیکن غلام اسحاق خان نے انہیں دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ذوالفقار علی بھٹو و بے نظیر بھٹو کے پلس پوائنٹ کا ہمیشہ معترف رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ پاک افغان بارڈر یقینی طور پر وزارت خارجہ و فوج کے ساتھ مشاورت کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد ہی کھولا گیا ہو گا۔ پاک افغان معاملات سلجھانے میں برطانیہ کی دلچسپی پر انہوں نے کہا کہ برطانیہ کا ایک کمپلیکس ہے، ہمارے سمیت آدھی دنیا برطانیہ کی کالونی تھے۔ وہ تجارت کرنے آیا تھا، بہت دیر تک پورے انڈیا میں برطانیہ کی نہیں بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی رہی جس کا ہیڈ آفس لندن میں تھا۔ پھر کچھ انگریزوں نے پیسے و اسلحے کے زور پر پورے انڈیا پر قبضہ کر لیا۔ غیر شعوری طور پر برطانیہ ابھی تک خود کو اس علاقے کا ماما سمجھتا ہے۔ انڈیا نے بھی اسے چھوٹ دے رکھی ہے۔ وزیراعظم ٹونی بلیئر کے زمانے میں لندن میں بھی کارٹون چھپتے تھے کہ بھارت برطانیہ کا کتا ہے، جس پر مظاہرے بھی ہوتے تھے۔ اب بھی برطانیہ امریکی مفادات کو جس علاقے میں پورا کرنا چاہتا ہے کرتا ہے۔ پھر اس نے دولت مشترکہ کا شوشہ چلا دیا جس کی سربراہ ملکہ برطانیہ ہیں جو چل بھی نہیں سکتیں، پاک بھارت محبت بہت سی کالونیاں اس کی ممبر ہیں۔ برطانوی حکومت ابھی بھی اپنی سابقہ کالونیوں کا خود کو 50 فیصد حکمران سمجھتی ہے۔ پاکستان و بھارت کو آزادی تو دیدی لیکن مکمل طور پر نہیں۔ برطانیہ ہمارے باغیوں کو سیاسی پناہ دیتا ہے۔ وہ کل کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالتوں کا بڑا احترام کرتا ہوں، سپریم کورٹ نے بھی شراب خانوں پر قانون موجود ہونے کی بنیاد پر فیصلہ سنایا۔ شراب کی دکانیں کھلی ہوئی تھیں، اتنا ٹیکس حکومت کے خزانے میں جمع ہوتا تھا، اس کی خلاف ورزی نہیں ہوئی لہٰذا کسی آرڈر کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے پہلے بازار حسن کے لوگوں کو بھی ایک قانون کے تحت حق حاصل تھا۔ بابری مسجد کی جگہ مسجد یا مندر بنانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ 20 سال بعد کہہ دیا کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارت مکمل طور پر ایک ہندو سٹیٹ بن چکا ہے اب یہ سیکولر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ سابق کمشنر انڈس واٹر ٹریٹی جماعت علی شاہ نے کہا ہے کہ بھارت کو جہاں محدود ڈیم بنانے کا حق دیا گیا تھا، وہیں پاکستان کے کچھ خدشات و تحفظات بھی موجود ہیں۔ جیسے کہ ڈیم کا ڈیزائن کیا ہو گا، روزانہ اور ہفتہ وار پانی کا بہاﺅ کس طرح کا ہونا چاہئے، سٹرکچر کس طرح کا ہو گا، بھارت ان سب چیزوں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ ہمارے اعتراضات کے باوجود کمیشن کی میٹنگ نہ ہو اور جب کمیشن میں کچھ ثابت کر دیں تو پھر ورلڈ بنک میں ہمارا راستہ روکا جائے، پروجیکٹ اپنی جگہ پر چلتے رہیں تو پھر یہ کس طرح کی ٹریٹی ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ بڑی پاسداری کر رہے ہیں، یہ کہاں لکھا ہے کہ بھارتی وزیراعظم پانی و ٹریٹی بند کرنے کی دھمکی دے سکتا ہے۔ پاکستان کو اس لائف لائن پر کوئی سلوگن بھی برداشت نہیں کرنا چاہئے۔ یہ انسیٹوز ٹیکنیکل نوعیت کے ضرور ہیں لیکن بھارت کا مائنڈ سیٹ غیر معمولی حد تک کمیشن سے برھ کر ہے۔ کمیشن کی میٹنگز چلنی چاہئیں، اب کوڈ آف آربیٹریشن کا مسئلہ حل کرنا چاہئے جو ورلڈ بینک نے روک رکھا ہے۔ پاکستان حکومت کو بھارت کا مائنڈ سیٹ سمجھنا ہو گا۔ ہمارا پانی ان دریاﺅں سے ہے لہٰذا اپنے خدشات کے مطابق دفاع کرنا چاہئے۔ بھارت نے اور کتنے ڈیم بنانے اور بھرنے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم امریکہ و بھارت کے رحم و کرم پر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2008ءمیں جب بگلیہار ڈیم بنا تھا تو پہلی بار ڈیم بھرنے کے لئے دونوں کمشنروں کی باہمی رضا مندی ضروری ہے جو ٹریٹی میں واضح طور پر لکھا ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج لگا ہوا تھا، گورنر کے حکم پر ڈیم بھر لیا گیا۔ جس پر ہماری طرف پانی کی قلت ہوئی۔ تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ بھارت ہمارے پانی کو کنٹرول نہیں کرتا، اس میں کمی نہیں کرتا اور اس میں کوئی کمی و بیشی نہیں کرتا۔



خاص خبریں



سائنس اور ٹیکنالوجی



تازہ ترین ویڈیوز



HEAD OFFICE
Khabrain Tower
12 Lawrance Road Lahore
Pakistan

Channel Five Pakistan© 2015.
© 2015, CHANNEL FIVE PAKISTAN | All rights of the publication are reserved by channelfivepakistan.tv